مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارتی فوجیوںنے1989سے اب تک 2353کشمیری خواتین کو شہیدکیا

اسلام آباد:آج جب دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین بدستور بھارتی ریاستی دہشت گردی، ناانصافی، ظلم وستم اورتشدد کا شکار ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے اس دن کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کشمیری خواتین کی حرمت اور وقار کو نشانہ بنانے کے لیے کالے قوانین کو ہتھیار کے طورپر استعمال کررہا ہے۔خاص طور پر 5اگست 2019کو بی جے پی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارتی فوج، پیراملٹری فورسز، پولیس اور ان کی ایجنسیوں نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کھلے عام کشمیری خواتین کو نشانہ بنانے، ہراساںکرنے اور ان کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے کے لئے قانون کی آڑ لی ہے جبکہ ان کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، انسانی اور دیگر حقوق کو سلب کیاگیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے1989سے مقبوضہ علاقے میں 2353خواتین کو شہید اور 11,265کی بے حرمتی کی۔بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے گزشتہ 36سال میں 22,980کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں۔رپورٹ میں کہاگیا کہ 65سالہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، آسیہ بانو، آفرینہ، نگینہ، عشرت رسول، منیرہ بیگم، سروہ بیگم، شفیقہ بیگم، روبینہ نذیر، نصرت جان،شبروزہ بانو، مدیفہ، اور شیما شفیع وازہ سمیت تین درجن سے زائد خواتین غیر قانونی طور پر بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرکی مختلف جیلوں میں سات سال سے زائد عرصے سے نظر بند ہیں۔بھارتی فوجیوں نے2024میں راجوری، پونچھ، سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع میں من گھڑت مقدمات کی بنیاد پر گھروں پر چھاپوں کے دوران خانہ بدوش اقام دین اور طالب شاہ کی بیویوں سمیت کئی خواتین کو گرفتار کیا۔رپورٹ میں کہاگیا کہ بھارت کشمیریوں کی تذلیل کرنے کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیان میں عصمت دری اوردہرے قتل اور کٹھوعہ میںعصمت دری اور قتل جیسے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے23فروری 1991کی رات کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران تقریبا 100 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی۔  29مئی 2009کو شوپیان میں دوخواتین آسیہ اورنیلوفر کو اغوا کے بعدعصمت دری کا نشانہ بنایاگیا اوربعدمیں قتل کر دیا گیا۔جنوری 2018 میںجموں کے علاقے کٹھوعہ میں بھارتی پولیس اہلکاروں اور دائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ فرقہ پرست ہندوئوں نے ایک 8سالہ مسلمان بچی آصفہ بانو کو بار بار اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اوربعد میں قتل کردیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیری خواتین کو اپنے پیاروں کے قتل، گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے ذریعے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر زور دیا گیاکہ وہ مداخلت کریں اور بھارت کو کشمیری خواتین کے خلاف گھنائونے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے باز رکھیں۔
دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں زمرودہ حبیب، یاسمین راجہ اور فریدہ بہن جی نے اپنے الگ الگ بیانات میں عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی، ناانصافیوں اور خواتین کے خلاف مظالم کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button