بھارت

بھارت :ہند و انتہاپسندوں کا ایک اورمسجد پر دعویٰ ، عدالت نے جلد بازی میں سروے کرایا


نئی دہلی :بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں ہندو انتہا پسندوں نے مغل دور کی ایک اورمسجد پر دعویٰ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مسجد ایک مندر کی جگہ تعمیر کی گئی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ہندوئوں کی درخواست پرمقامی عدالت نے جلد بازی میں مسجد کا سروے کرانے کا حکم دیا۔ ہندئووں نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیاتھا کہ مسجد دراصل بھگوان وشنو کے اوتار کو وقف ایک قدیم ہندو مندر ہے۔تاہم شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی اورمقامی مسلمانوں نے عجلت میں مسجد کے سروے پر حیرت کا اظہار کیا۔ عدالت کے سروے کی ہدایت کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو نے سروے کی کارروائی شروع کر دی۔سروے کی کارروائی ضلع مجسٹریٹ اور ضلع پولیس سربراہ کی موجودگی میں کی گئی۔ ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک جاری رہنے والے سروے کے دوران مسجد کے احاطے کی فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کی گئی۔ یاد رہے سول جج سینئر ڈیویژن آدتیہ سنگھ نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعوی کرنے والے ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کی قیادت میں آٹھ لوگوں کی طرف سے دائر درخواست کے بعد مسجد کے سروے کی ہدایت دی ہے۔مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایت پر بنایا گیا تھا، جسے ضلع سنبھل کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک تاریخی یادگارکے طور پر دکھایا گیا ہے۔ تاہم ہندو انتہاپسندوں نے دعوی کیا ہے کہ مسجد وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر ہے ۔مسجد کی نمائندگی کرنے والے وکیل ظفر علی نے بتایا کہ سروے دو گھنٹے تک جاری رہا۔ سروے کے دوران کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی جو شکوک و شبہات کو جنم دیتی۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ شاہی جامع مسجد دراصل ایک مسجد ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم آنے کے فورا بعد سروے کرایا گیا۔ذرائع کے مطابق عدالت نے اپنا حکم تقریبا 3:30بجے سنایا اور ایڈوکیٹ کمشنر کا سروے شام 7بجے شروع ہوا۔ مسجد سے وابستہ ایک وکیل نے کہا کہ انہیں اپنا اعتراض درج کرانے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ضروری امن اجلاس بلایاگیا۔
سنبھل سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیا الرحمان برق نے ایڈوکیٹ کمشنر کے سروے کو جلد بازی میں شروع کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے مسجد کے باہر صحافیوں کو بتایا،ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ ہمارا جواب نہیں مانگا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کو عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا اس کے باوجود کچھ لوگ ریاست اور ملک کا ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔KMS-08/S

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button