لیگل فورم فار کشمیر کے ڈوزیئرمیں مقبوضہ کشمیرمیں جعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کا سفاک چہرہ بے نقاب
اسلام آباد 13ستمبر (کے ایم ایس )لیگل فورم فار کشمیر کی طرف سے مرتب کردہ ایک ڈوزیئر میں غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں متعدد جعلی مقابلوں میں ملوث بھارتی فورسز کے اہلکاروں کا سفاک چہرہ بے نقاب کیاگیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت اپنی قابض افواج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں شہری آبادی کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہی ہے۔ بھارتی قابض افواج کشمیر یوں کی حق پر مبنی تحریک آزادی اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ریاستی سرپرستی میں جعلی فلیگ آپریشن کرتی ہیں۔ ڈوزیئرمیں کہا گیا ہے کہ ان جھوٹے فلیگ آپریشنز کا واضح ثبوت مقبوضہ علاقے میں بے گناہ کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل ہے جنھیں جانبدار بھارتی میڈیا غیر ملکی عسکریت پسند کے طور پر پیش کرتا ہے۔لیگل فورم فار کشمیر کے ڈوزیئر میں بتایا گیا ہے کہ 2000سے رواں سال 10اکتوبر تک مقبوضہ کشمیرمیں جعلی مقابلوں کے 146بڑے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 269بے گناہ کشمیریوںکو شہید کیاگیا۔ ڈوزیئر میں ان جعلی مقابلوں میں بھارتی فوج ، نیم فوجی دستوں، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں اوریونٹوں کے بارے میں تاریخوں اورمقامات سمیت تمام تفصیلات بھی شامل ہیں۔ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ رواں سال 21ستمبر کو سٹین فورڈ یونیورسٹی کی طرف سے بھارت ڈس انفارمیشن مہم سے متعلق حالیہ رپورٹ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کا ایک فارمیشنXVکور جسے چنار کور بھی کہا جاتا ہے کشمیریوں کے جعلی ٹویٹر اکائونٹس کے آن لائن نیٹ ورک میں ملوث ہے۔ یہ کو رکشمیریوں کی آزادی کی مقامی جدوجہد کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے بھارتی فوج کے حق میں پروپیگنڈہ پھیلاتی ہے ۔ڈوزئیر میں خاص طور پر ایک پاکستانی شہری محمد علی حسین (اصل نام عزیر الرحمان)کے سفاکانہ قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جو مقبوضہ کشمیر کی ایک جیل میں نظر بند کیا گیا تھا اور جموں میں ایک جعلی مقابلے میں اسے قتل کردیاگیا۔2006میں 26سالہ محمد علی حسین محلہ اکبر آباد ہری پور ڈویژن میں اپنے گھر سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کے بھائی نے 10 اکتوبر 2006 کو پولیس اسٹیشن میں اس کی گمشدگی کی اطلاع دی اور پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق10نومبر 2006 کو محمد علی حسین کو وجے نگر پولیس نے گرفتار کیا اور چار سال بعد19نومبر 2010کواسے تہاڑ جیل میں قونصلر رسائی فراہم کی گئی۔ اسے تعزیرات ہند کی مختلف دفعات بشمول قتل کی کوشش کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ دوران حراست اسے بھارتی پولیس نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔ڈوزیئر میں مزہد کہا گیا ہے کہ یکم جولائی 2022کو بھارتی وزارت خارجہ نے ہندوستانی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی ایک فہرست پاکستانی حکام کے ساتھ شیئر کی تھی جس میں پندرہ سال سے زائد عرصے سے قید علی حسین کابھی ذکر موجود تھا۔ مقدمے کی سماعت اس میں کہا گیا ہے کہ 17 اگست 2022 کو بھارتی پولیس نے ریاستی دہشت گردی کا ایک صریح مظاہرہ کرتے ہوئے محمد علی حسین کو جموں کی کوٹ بھلوال جیل سے اسے ٹوف ارنیا کے علاقے میں لایا اور ایک جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ جیل سے دور ایک مقام پر محمد علی حسین کی پراسرار ہلاکت نے بھارت میں قید442سے زائد پاکستانی قیدیوں کے تحفظ اور سلامتی پر سوالات کھڑے کر دیے۔ ایک بے گناہ پاکستانی قیدی کا ماورائے عدالت قتل راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی قیدی ضیا مصطفی کے اسی طرح کے ایک اورجعلی مقابلے میں قتل کی یاد دلاتا ہے جسے گزشتہ سال23اکتوبر کوجموں کی کوٹ بھلوال جیل سے نکال کر بھارتی فوجیوں نے پونچھ کے جنگلوں میں جعلی مقابلے میں قتل کردیاتھا۔ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیریوںکا ماورائے عدالت قتل انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کی صریحاخلاف ورزی ہے۔بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ارکان کو محمد علی حسین کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن آف انکوائری کے تقرر کے لیے ایک قرارداد منظور کرنی چاہیے۔ڈوزئیر میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تمام پاکستانی قیدیوں کی حفاظت، سلامتی اور انسانی سلوک کو یقینی بنائے، آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق/ سول سوسائٹی کی تنظیموں کومقبوضہ کشمیر تک بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دے تاکہ زمینی حقائق کا پتہ چلایا جاسکے اوربھارتی جیلوں سے ان تمام پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا جائے جنہوں نے اپنی قید کی مدت پوری کر لی ہے۔
👇
Dossier