بھارت اقوام متحدہ میں فلسطین کے بارے میں قراردادکی حمایت نہ کرکے ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا
اقوام متحدہ 02جنوری(کے ایم ایس) فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے قانونی نتائج کے بارے میں عالمی عدالت انصاف سے رائے طلب کرنے کے بارے میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تاریخی قرارداد پر بھارت کے غیر حاضر رہنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اسرائیلی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق پاکستا ن کے تعاون سے پیش کی گئی یہ قراردادجمعہ کے روز 193رکنی اسمبلی نے منظورکرلی جس کے حق میں 87 اورمخالفت میں 26ووٹ پڑے جبکہ53ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ قرارداد پر مغربی ممالک منقسم رہے تاہم اس کواسلامی دنیا کی متفقہ حمایت حاصل رہی۔ روس اور چین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور اسرائیل ، امریکہ ،برطانیہ اور جرمنی سمیت 22دیگر ارکان نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ بھارت اور فرانس ان 53ممالک میں شامل تھے جنہوں نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اے پی پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایاکہ بھارت کا غیر حاضر رہنا جموں و کشمیر پراس کے قبضے، کشمیریوں کی زمینیں چھیننے ، آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت سے انکار دراصل اسرائیلی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ انہوں نے کہاکہ جنرل اسمبلی نے اسرائیلی قبضے سے پیدا ہونے والے مسائل پر عالمی عدالت انصاف سے رائے طلب کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ فلسطین میں اسرائیلی جرائم کی تصدیق سے مقبوضہ جموں وکشمیر میںبھارت کے مجرمانہ کردار کی بھی تصدیق ہوگی۔”اسرائیلی طرز عمل جومشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کو متاثر کرتا ہیں”کے زیر عنوان قرارداد میںعالمی عدالت سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق خودارایت کی خلاف ورزی اور یروشلم کے مقدس شہرمیں آبادی کا تناسب اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر قانونی نتائج کا تعین کرے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ستمبر 2023میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں قرارداد پر عملدرآمدسے متعلق ایک رپورٹ پیش کریں۔ اقوام متحدہ میںفلسطین کے مستقل مبصر سفارتکار ریاض منصور نے ان ممالک کا شکریہ اداکیا جنہوں نے دھمکیوں اور دبائو کے باوجود قرارداد کے حق میں ووٹ دیاہے۔