مقبوضہ جموں و کشمیر

دلی فسادات کا مقدمہ من گھڑت ہے:عمر خالد, پولیس کے دعوئوں میں تضادات


نئی دلی 24 اگست (کے ایم ایس )
شمال مشرقی دلی میں فسادات کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت گرفتار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد نے دلی کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ پولیس کے دعوئوں میں کئی تضادات ہیںاور اس مقدمہ کو ایک سازش قراردیا۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق عمر خالد کو متعدد طلباء کے ساتھ فروری 2020 میں نئی دلی میںفسادات کی سازش کے الزام میں غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت گرفتار کیاگیاتھا۔ ان فسادات میں 53 افراد ہلاک جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔عمرخالد نے اس کیس میں ضمانت طلب کی ہے۔ان کے وکیل تردیپ پیس نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمہ من گھڑت اور غیرضروری ہے اور ایک سازش کے تحت عمر خالد کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے قائم کیاگیا ہے ۔انہوںنے دلی پولیس کے دعوئوں میں دو تضادات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے سب سے پہلے عدالت کو مہاراشٹر میں عمرخالد کی تقریر کی 21منٹ دورانیے کی ویڈیو دکھائی جسے مبینہ طور پر استغاثہ نے اشتعال انگیز قرار دیاتھا۔اس دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے تقریر میں تشدد کی کوئی کال نہیں دی بلکہ انہوںنے لوگوں کو اتحاد کا پیغام دیا۔وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس ٹی وی چینلز کی جانب سے سوشل میڈیا سے لی گئی غیر مستند ویڈیو کلپس کے علاوہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ، جو اس پر لگائے گئے الزامات کی صداقت کو ثابت کرنے کیلیے کافی ہوں۔عدالت نے ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت تین ستمبر تک ملتوی کر دی ہے ۔ متنازعہ قانون شہریت کے خلاف نئی دلی میں احتجاج کے دوران مبینہ طورپر اشتعال انگیز تقاریر پر گرفتار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم شرجیل امام نے دلی کی عدالت کو بتایا کہ بغاوت کے الزام سے انہیں مرعوب نہیں کیاجاسکتا اور انہوںنے اپنی تقریر میںتشدد کی کال نہیں دی تھی ۔ ان کے خلاف 2019میں دو یونیورسٹیوں میں تقاریر کے خلاف غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیاگیا ہے ۔ عدالت ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کی سماعت کررہی ہے ۔ سماعت کے دوران ان کے وکیل تنویر احمد نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ ان کی تقریر میں کسی قسم کے تشدد کی کال نہیں دی گئی تھی۔ انہوںنے بتایا کہ ان کے موکل نے تقریر میں قانون شہریت کو غیر آئینی قراردیا تھا اور حکومت پر اس پر دوبارہ غورکیلئے زوردیا تھا اور کہاتھا کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کیاجائے گا۔ انہوںنے مزید بتایا کہ انہوںنے تشدد کی نہیں بلکہ سڑکوںکو بلاک کرنے کی کال دی تھی اور نہ ہی شمال مشرق کو ایک علیحدہ ریاست بنانے یا آزادی دینے کا مطالبہ کیاتھا اور یہ غداری نہیں ہے ۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button