بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر حملے
محمد شہباز
گزشتہ روز جب دنیا میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے واقعات کے متاثرین کی یاد میں بین الاقوامی دن منایا جارہا تھا،تو مودی کی زیر قیادت بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو بڑھتے ہوئے تشدد اور حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہندتوا آر ایس ایس اور بی جے پی بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔مودی حکومت بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف آر ایس ایس کے نظریے کو نہ صرف مسلط بلکہ مسلسل اس فسطائی نظریئے کا پرچار کر رہی ہے۔2014 میں بر سراقتدار آنے کے بعدمودی کے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔بھارت میں مذہبی اقلیتیں خوف ودہشت کے ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے کیلئے دہشت گردی کو سرکاری پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔بی جے پی بھارت کو اپنی مذہبی اقلیتوں سے پاک کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔مودی اور ان کے ہندتوا ساتھی پورے بھارت میں ہندو بالادستی کو فروغ دے رہے ہیں۔بھارت میںمذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی تازہ ترین مثال شورش زدہ ریاست منی پور ہے جہاں عیسائیوں کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ظلم و ستم اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جس پر مودی اور اس کی حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔منی پور میں حالیہ عیسائی مخالف نسلی فسادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔منی پور میں عیسائی قبائلیوں کی نسل کشی جاری ہے،جہاں رواں برس چار مئی سے لے کر اب تک 160 سے زیادہ افراد ہلاک اور 600 زخمی ہوئے،جبکہ 400 سے زائد گرجا گھروں کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں،سکھوں،نچلی ذات کے دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقامات پرہندوتوا طاقتوں کی جانب سے بغیر کسی خوف و ڈر کے حملے اور ان میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ہندوتوا طاقتیں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کرتی ہیں۔مودی کا فسطائی نظریہ پورے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔جیسا کہ گزشتہ روز دنیا نے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے متاثرین کیلئے یکجہتی کا اظہار کیا ہے، اسے بھارت میں بھی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زبوں حالی کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہیے۔عالمی برادری بھارت میں ہندو فاشزم کا نوٹس لے،جس نے اقلیتوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔
1947میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی بھارت میں ذات پات اور اونچ نیچ نے جنم لیا۔آہستہ آہستہ یہ جڑیں بھارتی معاشرے میں بہت گہرائی تک سرایت کرگئیں۔برہمن اونچی ذات کہلائے جبکہ دلت نچلی ذات۔برہمن اپنے آپ کو بھارت کے مالک سمجھ بیٹھے ۔انہوں نے خود کو بھارت کے سیاہ سفید کا مختار کل سمجھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی زمام کار برہمنوں کے ہاتھ میں دی گئی،وہ برہمن جو انگریزوں کے کتے نہلاتے اور ان کی چاکری کرنے میں فکر محسوس کرتے تھے جس کے عوض انہیں بڑی بڑی جاگیریں دی گئیں۔ان برہمنوں نے ایک لیکر کھینچی کہ ان کیلئے مندر اور رہن سہن الگ اور جدا گانہ ہوگا ۔برہمنوں کے مندروں میں نچلی ذات یعنی دلتوں کو عبادت کرنے کی اجازت تو دور انہیں اس گلاس میں بھی پانی پینے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں برہمن پانی پیتے ہیں۔یہ ذات پات کا نظام بھارت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مظبوط سے مظبوط تر ہوتا چلا گیا۔عیسائی ،سکھ اور دوسرے مذاہب کے مانے والے بھی برہمنوں کے دشمن ٹھرے جبکہ مسلمان شروع دن سے ان کیلئے شجر ممنوعہ تو تھے ہی۔یہی وجہ ہے کہ 1947 میں انگریزوں سے ازادی کے بعد سے بھارت میں اب تک 70000 مسلم کش فسادات میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔1984 میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ٹینکوں سے حملہ کرکے اس سے زمین بوس کرنے کے علاوہ سکھوں کی نسلی تطہیر کی گئی اور ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔سکھوں کی اکثریتی ریاست پنجاب کے علاوہ دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں کو سکھوں کے خون سے نہلایا گیا ۔ عیسائیو ں کو آئے روز حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ان کی خواتین رہبائیوں کو پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے جبکہ دلت خواتین کی آبروریزی بھارت میں عام ہے اور پھر طرہ یہ کہ نہ پولیس مجرموں کے خلاف FIR درج اور نہ ہی مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی کرتی ہے۔ڈر کے مارے بھی دلت پولیس تھانوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہFIR درج کرنے کی صورت میں انہیں برہمنوں کے ہاتھوں مزید تشدد اور خواتین کی بیحرمتی کا خوف ستائے رکھتا ہے۔
گو کہ بھارت میں اقلیتوں پرپہلے بھی حملے ہوتے رہے لیکن 2014 میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان حملوں میں خوفناک اضافہ ہو اہے۔مودی جو کہ2002 میں گجرات کے وزیر اعلی تھے۔اس کی ایما پرہزاروں مسلمانوں کا تہیہ تیغ کیا گیا ۔مسلمانوں کوزندہ جلایا گیا جبکہ حاملہ مسلم خواتین کے پیٹ چاک کرکے بی جے پی کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے روشناس کرایا گیا۔اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے گجرات مسلم کش فسادات پر بھارتی عوام سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کرکے احساس شرمندگی کا اظہارکرتے ہوئے ان حملوں کو بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا تھا۔امریکہ نے مودی کے ملک میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی تھی اور مودی کی جانب سے بار بار ویزا درخواستوں کو مسترد کیا جاتا رہا۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ بہادر جو کہ خود کو دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار گردانتا ہے مودی کو پیارا ہوگیا ہے۔
2020 میں بھارت میں ایک اور مسلم کش فسادات دہلی میں کیا گیا جب مودی نے بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی بل متعارف کرایا جس میں صرف مسلمانوں کی شہریت پر سوال اٹھایا گیا ۔مسلمانوں نے اس بل کی مخالفت میں پورے بھارت میں باالعموم اور شاہیں باغ دہلی میں بالخصوص کئی مہینوں تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جس پر بی جے پی وزیر انو راگ ٹھاکر نے ایک جلسے میں دیش کے غداروں کو گولی مارو کا نعرہ لگایا اور یہی نعرہ فروری 2020 میں دہلی مسلم کش فسادات کا باعث بنا جس میں 50سے زائد لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے اس کے علاوہ مسلمانوں کی املاک،مساجد حتی کہ مسلم قبرستانوں کو بھی نقصان پہنچانا ضروری سمجھا گیا۔دہلی پولیس ہندتوا غنڈوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملوں میں شریک رہی جس پر بعدازاں عالمی نشریاتی ادارہ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں دہلی پولیس کو مسلمانوں پر حملوں میں براہ راست ذمہ دار ٹھرایا ۔BBC نے ہی گزشتہ برس گجرات مسلم کش فسادات پر ایک دستاویزی فلم : انڈیا: دی مودی کیوسچن میں مودی کا سفاک چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کے کہنے پر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جو کہ ایک منظم منصوبے کے تحت انجام دیا گیا۔BBC کی اس فلم نے پوری دنیا میں تہلکہ مچایا ہے جس پر بھارت نے مذکورہ فلم پر ہی پابندی عائد کرکے اپنے لیے مزید ذلت و رسوائی کا سامان کیا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو دن دیہاڑے بلڈوزروں سے ملیا میٹ کیا جاتا ہے۔عتیق احمد اور ان کے بھائی کا پولیس حراست میں منصوبہ بند قتل کرایا گیا اور قاتل جئے شری رام کے نعرے لگا تے ہوئے آرام سے نکل جانے میں کامیاب ہوگئے۔
بھارتی مسلمانوں کو کبھی لو جہاد تو کبھی گائے کا گوشت پکانے کے الزام میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔گائے کے پجاری جو خود کو گاو رکھشک کہلاتے ہیں آج تک بیسیوں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرچکے ہیں جس کی شروعات اخلاق خان کے قتل سے کی گئی جنہیں محض گھر میں گائے کا گوشت پکانے کے الزام میں قتل کیا گیا۔تب سے لیکر یہ سلسلہ چل پڑا اور اب یہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔نہ جانے یہ جن کتنی زندگیوں کو نگل جائے گا کیونکہ مودی اس تمام تر صورتحال پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔تجزیہ نگار یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ ساری کاروائیاں مودی کی ایما پر ہی کی جاتی ہیں کیونکہ آج تک کسی قاتل کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔
شمال مشرقی ریاست منی پور رواں برس 04 مئیسے جل رہی ہے ۔میتی جو کہ ہندو قبائل ہے بی جے پی باالخصوص بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ایماء پر کوکی عیسائی برادری کا قتل عام کررہی ہے۔نہ صرف آج تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 160 سے زائد لوگوں کا قتل کیا جاچکا ہے بلکہ 400 سے زائد چرچز بھی نذر آتش کیے گئے ۔عیسائی خواتین کو برہنہ کرکے ان کی پریڈ کرائی جاتی ہے اور پھر ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائر ل کرکے انسانیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔منی پور میں عملا حکومتی عملداری ختم ہوچکی ہے ۔ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر جاچکے ہیں۔مسلح افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔پولیس اسٹیشنوں اور فوجی کیمپوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار لوٹے جاچکے ہیں۔ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔حال ہی میں امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں آزادی سے لیکر اب تک 50 ہزار مساجد اور 20 ہزار چرچز کو انتہاپسندی کا نشانہ بنایا گیا، امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ 6 دسمبر 1992 میں ایودھیا میں انتہا پسند ہندوئوں نے صدیوں پرانی بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ 2017 میں انہی انتہا پسندوں نے تاج محل پر بھی شیو مندر ہونے کا دعوی جتلایا تھا۔منی پور میں بھی حالیہ نسلی فسادات کے دوران 400 سے زائد گرجا گھر جلائے جا چکے ہیں۔امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے دلتوں پر منظم حملے کیے جاتے ہیں۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور RSS بھارتی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پرحملوں میں پیش پیش ہیں۔دنیا اب خواب غفلت سے بیدار ہوجائے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ۔نسل کشی سے متعلق تنظیم جینوسائیڈ واچ پہلے ہی خبردار کرچکی ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں نسل کشی آخری مراحل میں ہے اگر دنیا نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں نسل کشی یقینی امر ہے۔