مقبوضہ جموں و کشمیر،کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہوسکتی ہے
محمد شہباز
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی پولیس نے کشمیری صحافیوں کے خلاف مودی حکومت کے کریک ڈاون کو بے نقاب کرنے پر برطانوی نشریاتی ادارے BBC کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ BBC نے ‘کوئی بھی کہانی آپ کی آخری کہانی ہو سکتی ہے’ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں مقبوضہ جموںو کشمیرمیں صحافیوں کو درپیش بھارتی دھمکیوں کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ یوگیتا لیمیا کا تحریر کردہ بی بی سی مضمون یکم ستمبر 2023کو شائع ہواہے جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے خلاف بھارتی کریک ڈائون کو مکمل طور پربے نقاب کیاگیا ہے۔ بی بی سی مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیری صحافی بھارتی حکام کی طرف سے انتقامی دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کا مسلسل مشاہدہ کر رہے ہیں۔خاص کر 5 اگست 2019 جب بھارت نے مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی تب سے کشمیری صحافیوں کو نشانہ بنانے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی صحافت کو قابض بھارتی حکام کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔مقبوضہ جموںو کشمیرمیں چھاپوں، سمن جاری کرنا، ہراساں کرنا، گرفتاریاں اور صحافیوں کوجسمانی وذہنی تشدد کا نشانہ بنانا روز کا معمول ہے۔ مودی حکومت کشمیری صحافیوں کے خلاف ظالمانہ ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر انہیں خاموش کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
یوگیتا لیمیا اپنے مضمون میں لکھتی ہے کہ کشمیری صحافیوں کو بھارتی حکومت کی جانب سے آزادی پسند تحریک اور عسکری گروپوں سے متعلق رپورٹنگ کرنے سے نہ صرف منع کر رہی ہے، بلکہ بھارتی فوجیوںیا بھارتی انتظامیہ کی تنقیدی کوریج، یہاں تک کہ روزمرہ کے عوامی مسائل پر بھی رپورٹنگ کرنے سے روکا جاتا ہے۔اسی مذکورہ مضمون میں آگے جاکر اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پانچ اپریل سنہ 2022 میں وسطی سرینگر کے بٹہ مالو میں محمد سلطان کے گھر پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔مقبوضہ جموںو کشمیر میں موسم بہار کا ایک خوشگوار دن تھا، ساڑھے تین برسوں سے زائد عدالتوں اور پولیس تھانوں کے چکر لگانے کے بعد ان کے گھر والوں کو ایک انتہائی خوشی کی خبر ملی، وہ یہ کہ آصف سلطان، ایک صحافی، شوہر، باپ اور بیٹے کی ضمانت کی درخواست منظور ہو گئی۔رشتہ دار ان کے گھر پہنچے اور ان کا انتظار شروع ہو گیا ، اسی انتظار میں جب گھنٹے دنوں میں تبدیل ہو گئے تو آصف سلطان کے گھر والے پریشان ہونے لگے۔10 اپریل کو آصف پر ایک اور الزام عائد کر دیا گیا۔ جس کے بعد انھیں نہ تو رہا کیا گیا بلکہ مقبوضہ کشمیر سے باہر ایک اور جیل میںمنتقل کیا گیا، جس کے بعد گھر والوں ان سے ملاقاتیں بھی مشکل ہو گئیں۔ان کے والد محمد سلطان نے کہا کہ ہمارے پاس تو کچھ نہیں رہا مگر ہم یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ آصف سلطان بے قصور ہے اس لیے ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ان کی پانچ سالہ پوتی اریبہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور ان کی گود میں بیٹھ گئی، وہ چھ ماہ کی تھی جب ان کے والد آصف سلطان کو گرفتار کیا گیا۔آصف سلطان پر سب سے پہلے مسلم اکثریتی مقبوضہ جموںو کشمیر میں عسکری تحریک کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ان پر انسداد دہشت گردی کے قانون (UAPA)کے تحت الزام لگایا گیا ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے خلاف دوسرا الزام ایک اور متنازعہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت ہے، جو بھارتی فوجیوں کو کسی بھی کشمیری کودو برس تک بغیر کسی الزام کے جیل میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔البتہ محمد سلطان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آصف کو ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا، خاص طور پر ان کا وہ مضمون جو انھوں نے افسانوی شہرت کے حامل برہان وانی کے بارے میں لکھا تھا، جس کی کشمیر نیرٹر نامی میگزین میں اشاعت کے ایک ماہ بعد اگست سنہ 2018 میں انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔
آصف سلطان ایک پیشہ ور رپورٹر ہیں اور انھیں عسکری تحریک کے بارے میں لکھنے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا۔حالانکہ آصف کاعسکری تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بھارتی حکومت آصف سلطان کو ایک مثال بنانا چاہتی ہے تاکہ کوئی بھی ایسے موضوعات پر لکھنے اور انھیں شائع کرنے کی جرات نہ کرے جو بھارتی حکومت کی مرضی کے خلاف ہوں۔یاد رہے کہ بی بی سی نے مقبوضہ جموںو کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف الزامات کی تحقیقات میں ایک برس سے زیادہ وقت لگایا ہے کہ جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ خطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور اداروں پر دبا وبڑہانے اور انھیں خاموش کرنے کیلئے ایک مذموم اور منظم مہم چلا رہی ہے۔ اس سلسلے میںبی بی سی کو کشمیری صحافیوں سے چھپ کر ملنا پڑا، جبکہ کشمیری صحافیوںنے بھارتی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنے نام چھپانے کی شرط رکھی۔بی بی سی نے کئی دوروں کے دوران دو درجن سے زیادہ کشمیری صحافیوں سے بات کی، ایڈیٹرز، رپورٹرز اور فوٹو جرنلسٹ جو آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں نیز ایسے صحافیوں سے بھی جو علاقائی اور بھارتی صحافتی اداروں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، ان سب نے بھارتی حکومتی اقدامات کو اپنے لیے ایک انتباہ کے طور پر بیان کیا۔آصف پانچ برس جیل میں گزار چکے ہیں۔ 2017 سے اب تک کم از کم سات دیگر کشمیری صحافیوں کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔ آصف سمیت چار صحافی تاحال سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ایک ڈیجیٹل میگزین( دی کشمیر والا ) کے ایڈیٹر فہد شاہ کو فروری 2022 میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان پر دہشت گردی کا پرچار کرنے کا الزام تھا۔ان سے ایک ماہ قبل فری لانس صحافی سجاد گل کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب انھوں نے سوشل میڈیا پر مقامی لوگوں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میںبھارت مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔ دونوں کو نئے الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے، تاہم ہر بار ان کی ضمانت منظور ہو جاتی ہے، لیکن انہیں رہا نہیں کیا جاتا۔صحافیوں کی گرفتاری کے سلسلے میں تازہ ترین واقع رواں برس مارچ میں پیش آیا۔ جس میں عرفان معراج نامی صحافی کو عسکری گروپوں کی مالی معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، معراج بین الاقوامی صحافتی اداروں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میںذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے متعدد دیگر افراد پر بھی مقدمات درج ہیں۔بی بی سی نے متعدد بارمقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ اور پولیس سے ان الزامات کا جواب دینے کیلئے رابطہ کیا ۔ انٹرویوز اور مخصوص سوالات کے ساتھ ای میلز کی مدد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔رواں برس مئی میں سرینگر میں جی 20 اجلاس میں بی بی سی نے بھارتی لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا سے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف کریک ڈاون کے الزامات کے بارے میں پوچھا،تو اس کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو دہشت گردی کے الزامات اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششوں کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، نہ کہ صحافت یا کہانیاں لکھنے کی وجہ سے۔البتہ بی بی سی کا کہنا ہے کہ ہم نے متعدد کشمیریوںسے بات کی جو بھارتی انتظامیہ کے ان دعووں کو جھٹلا رہے ہیں۔یوگیتا لیمیا کا مزید کہنا ہے کہ ایک رپورٹر نے مجھے بتایا، یہاں پولیس کی طرف سے صحافی کو طلب کرنا ایک عام بات ہے۔ اور درجنوں ایسے واقعات ہیں جہاں رپورٹرز کو ان کی خبروں پر حراست میں لیا گیا ہے۔یوگیتا لیمیا کا کہنا ہے کہ ایک صحافی نے انہیں بتایا کہ مجھے پولیس کی طرف سے اپنی کہانی کے بارے میں فون آنے لگے۔ وہ پوچھتے رہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ پھر مجھ سے ذاتی طور پر پوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔پولیس میرے اور میرے خاندان کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے جو میرے لیے بہت خوفناک تھا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا ہے، چاہے مجھے گرفتار کیا جائے یا مجھے جسمانی طور پر نقصان پہنچایا جائے۔یوگیتا لیمیا کا کہنا ہے کہ میں نے جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ نے کہا کہ انھیں پولیس نے کم از کم ایک بار تو ضرور طلب کیا۔بعض نے کہا کہ انھیں برے رویے، غصے اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک صحافی نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس خوف میں رہتے ہیں کہ کوئی بھی خبر ہمارے کیرئیر کی آخری خبر ہو سکتی ہے۔ اور پھر آپ جیل میں ہوں گے۔ایک اور رپورٹر نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں صحافت مر چکی ہے اور یہیں دفن ہے۔میں نے جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ انھیں پولیس نے معمول کی پوچھ گچھ کیلئے گزشتہ کچھ برسوں میں متعدد بار بلایا گیا ہے۔یوگیتا لیمیا کہتی ہیں کہ میں ایسی ہی یک فون کال کی گواہ تھی۔جس صحافی کے ساتھ میں تھی اسے مقامی پولیس سٹیشن سے کال آئی، انھوں نے اپنے فون کا سپیکر آن کر دیا، پولیس افسر نے اپنا تعارف کرایا اور صحافی سے ان کا نام، پتہ اور وہ کہاں کام کرتے ہیں، سب پوچھا۔جب صحافی نے پوچھا کہ ان تفصیلات کی ضرورت کیوں ہے۔لیکن اس نے صحافی اور ان کے اہل خانہ کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں، جن میں ان کے والدین کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، ان کے بہن بھائی کہاں پڑھتے اور کام کرتے ہیں، ان کے بہن بھائیوں کی کیا ڈگریاں ہیں، اور اس کاروبار کا نام جو ان کے بہن بھائیوں میں سے ایک چلاتے ہیں۔میں نے صحافی سے پوچھا کہ اس کال کے بعد انھیں کیسا لگا؟ان کا جواب تھا ‘یہ تشویشناک ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں، کیا وہ میرے خاندان کو دیکھ رہے ہیں، اس فون کال کی وجہ کیا بنی اور اب آگے کیا ہونے والا ہے؟دیگر صحافیوں نے کہا کہ ان سے مزید ذاتی تفصیلات بھی پوچھی گئیں جن میں ان کی ملکیت یا جائیداد کتنی ہے، ان کے کون سے بینک اکاونٹس ہیں، ان کے مذہبی اور سیاسی عقائد کیا ہیں۔ایک صحافی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم پربھارت دشمن، دہشت گردوں کے ہمدرد اور پاکستان کے حامی رپورٹروں کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سب کے بارے میں خبر رکھیں۔
یوگیتا لیمیا لکھتی ہیں کہ 05 اگست 2019 کے بعد سے معاملات بہت زیادہ خراب اور مشکل ہو گئے ہیں۔ یہ تب سے ہوا جب بھارت نے خطے کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے واحد مسلم اکثریتی ریاست کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔جبکہ بھارتی سپریم کورٹ میں ان دنوں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔کم از کم چار کشمیری صحافیوں کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا، یہی وجہ تھی کہ ایک پلٹزر انعام یافتہ فوٹوگرافر ایوارڈ کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔بعض صحافیوں کے پاسپورٹ بھی روک لیے گئے ۔ کچھ صحافیوں کو پہلے سے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ایک صحافی نے کہا کہ ہمارا دم گھٹنے لگا ہے یہاں بہت گھٹن محسوس ہونے لگی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ہم سب خود کو سنسر کر رہے ہیں۔ شاید ہی یہاں کہیں صحافت ہو رہی ہو یہاں تو بس حکومت کی ہی زبان بولی جا رہی ہے۔ایڈیٹرز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں اکثربھارتی انتظامیہ سے ہدایات ملتی ہیں کہ کس چیز کا احاطہ کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے۔ انھیں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب مجاہدین کا ذکر کرنا مقصود ہو تو عسکریت پسند کی بجائے دہشت گرد کا لفظ استعمال کریں۔مقبوضہ کشمیر میں صحافت کے ساتھ کیا ہوا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ مقامی اخبارات کا مطالعہ کریں۔رواں برس جون میں بھارتی فوجی اہلکاروں پر جنوبی کشمیر کے پلوامہ میں ایک مسجد میں داخل ہونے اور جے شری رام کے نعرے لگانے کے الزامات سامنے آئے۔عام حالات میں تمام ہی اداروں کے صحافی پلوامہ میں موجود اور تفصیلات کی تصدیق اور رپورٹ درج کرنے کیلئے وہاں تمام فریقین سے بات کرتے ہیں۔دوسرے دن صرف مٹھی بھر اخبارات میں یہ کہانی سامنے آئی، تقریبا تمام نے اسے مقامی سیاست دان محبوبہ مفتی کے اقتباس کے ذریعے رپورٹ کیا، جس نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔مزید اخبارات نے اس خبر کو پیش کیا، لیکن صرف اس واقعے کی تحقیقات کرنے والی بھارتی ا فواج کے بارے میں ایک کہانی کے طور پر۔ بمشکل کسی نے زمینی حقائق سے متعلق کوئی خبر دی ہو گی۔جب کہ زیادہ تر صحافیوں نے جن سے میں نے بات کی، کہا کہ وہ بھارت کی طرف سے انتقامی کارروائیوں سے ڈرتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں صحافی کی زندگی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ آپ ہر وقت خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔ وسطی سرینگر میں کشمیر پریس کلب تھا۔ یہ خاص طور پر ان آزاد صحافیوں کیلئے پناہ گاہ تھی جن کے دفتر نہیں ہیں۔اس کو بھی بند کردیا گیا۔
گذشتہ دہائی کے دوران پورے بھارت میں آزادی صحافت کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے، جس کی عکاسی عالمی درجہ بندی، صحافیوں کے خلاف مقدمات اور میڈیا ہاوسز کے خلاف چھاپوں سے ہوتی ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں گراوٹ کی کوئی حد نہیں، ہمیں اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ یہاں پریس کی آزادی ختم ہو چکی ہے۔آصف سلطان کے گھر میں اس میگزین( کشمیر نریٹر) کی ایک کاپی اب بھی کمرے کے شیلف میں رکھی ہے جس کے لیے آصف سلطان لکھتے تھے۔ان کے والد نے میگزین کھولا اور بائی لائن میں آصف کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے اپنی پوتی سے پوچھا کہ تصویر میں نظر آنے والا شخص کون ہے۔میرے پاپا۔۔۔ وہ جیل میں ہیں۔ اریبہ نے جواب دیا۔محمد سلطان کو امید ہے کہ آصف اس وقت سے پہلے گھر واپس آجائیں گے کہ جس کے بعد اریبہ کو اس اصل کہانی کا علم ہو جائے گا کہ ان کے والد کے ساتھ کیا ہوا تھا۔میں بوڑھا ہو رہا ہوں، آصف کے والد نے کہا۔ لیکن میں اس کیلئے باپ اور دادا دونوں بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ کب تک کر سکتا ہوں؟