کشمیری عوام کا مطالبہ استصواب رائے
: محمد شہباز
کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے چاہتے ہیں اور وہ بھارت کے وحشیانہ قبضے کو 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک جھیلنے کے باوجود استصواب رائے کے اپنے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔5 جنوری 1949 میں اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرارداد کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے اصول کو واضح اور نمایاں کرتی ہے۔جس میں اہل کشمیر کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے حق کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔خودبھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیری عوام کے استصواب رائے کے حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کے لازمی رائے شماری کا مطالبہ کرنے پر اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہا ہے۔برصغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا۔البتہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے انعقاد تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔جس میں 1947سے باالعموم اور 1989سے بالالخصوص سوا پانچ لاکھ جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں۔اربوں روپے مالیت کی جائیداد و املاک اور کھیت و کھیلان تباہ کیے جاچکے ہیں،جبکہ 05اگست 2019 میں مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیری عوام کی زرعی اراضی اور رہائشی مکانات پر قبضہ کرنے کا خوفناک سلسلہ تیز کیا گیا ہے جس کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے کہ مقبوضہ جموںو کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرکے اس سے ہندو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔یہاں نت نئے قوانیں کا نفاذ ،بیالیس لاکھ غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ جموںو کشمیر کا ڈومیسائل فراہم کیا جانا،حلقہ بندیوں کے نام پر مقبوضہ وادی کشمیر کے مقابلے میں جموںکو زیادہ سیٹیں دینا،پنڈتوں کیلئے دو جبکہ آزاد کشمیر سے واپس آنے والے شر نارتھیوں کیلئے ایک اسمبلی سیٹ مختص کرنا مودی اور اس کے حواریوں کے مذموم عزائم کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کی غالب نمائندگی کے برعکس ہندئوں کی اکثریت کیلئے کوشاں ہیں تاکہ ایک تو مقبوضہ جموںو کشمیر پر ہندو وزیر اعلی مسلط اور دوسرا ریاستی اسمبلی سے اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرائی جائے،تاکہ کشمیری عوام کو مکمل طور پر دیوار کیساتھ لگایا جائے۔
11 دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلے کی توثیق کی پوری دنیا میں مذمت اور مسترد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں OIC،پاکستان،چین،ترکیہ اور برطانوی ممبران پارلیمنٹ کا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا جانا بروقت اور درست اقدام ہے۔OICکے ردعمل نے بھارت اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار کیا کہ بھارتی وزرات خارجہ نے OIC کے بیان پر پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اسلامی تعاون تنظیم OIC نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاسی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نےOIC کے کسی خاص رکن ملک کا نام لیے بغیر کہاکہ اس طرح کے بیانات صرف 57رکنی گروپ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔OICنے 11 دسمبر کو05 اگست 2019میں بھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدامات کو برقراررکھنے کے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔OIC کے جنرل سیکرٹریٹ نے بھی مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کیلئے 5اگست 2019کے بعد سے کیے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
اسی طرح چین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں لداخ خطے کے کچھ علاقوں پر اپنے دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہاہے کہ چین نے بھارت کی طرف سے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر قائم کردہ لداخ کی نام نہاد یونین ٹیری ٹیری کو کبھی تسلیم نہیں کیاہے۔بھارتی حکومت نے5ا گست 2019میں آئین کی دفعہ370اور 35Aکے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کوختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا تھا۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان مائو ننگ نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ بھارت کا عدالتی فیصلہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتاکہ چین بھارت سرحد کا مغربی حصہ ہمیشہ سے چین کا ہے۔چین نے جموں و کشمیر میں تبدیلیوں پر اعتراض کیا تھا اورچین لداخ کے سرحدی علاقے پر اپنا دعوی کرتا ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔
ترکیہ نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے 11دسمبر کے فیصلے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر 2ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بنتا رہا ہے، مسئلہ کشمیرکو عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اوربات چیت سے حل کرنا چاہیے۔جبکہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کیا وہ مقبوضہ جموںو کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے باخبر ہے اور اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں جس کے جواب میں برطانوی حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پوری طرح باخبر ہیں ۔
اس سلسلے میں سب سے مثبت اور اہم پہلو یہ ہے کہ نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے15دسمبر کو آزاد کشمیر دارالحکومت مظفر آباد میں کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر سیاسی عزائم پر مبنی غیر قانونی اور غیر منصفانہ فیصلہ سنایاہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، کشمیری عوام کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔انوارلحق کاکڑ نے آزاد جموں وکشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مفاد اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، مقبوضہ جموںو کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، پاکستان پر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تین بار جنگ مسلط کی گئی، اگر 300 مرتبہ بھی جنگ مسلط کی گئی تو ہم یہ جنگ لڑیں گے اور اگر اس بارے میں کسی کے ذہن میں کسی قسم کا کوئی خدشہ ہے تو وہ دور کرلے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں گزشتہ سات دہائیوں سے حل طلب ہے اور یہ 1948 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میںکشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ سات عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اس کی بجائے بھارت کی موجودہ حکومت نے مقبوضہ جموںو کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اس متنازعہ علاقے میں نئی قانون سازی اور کئی انتظامی اقدامات کئے ہیں۔ یہ بھارت ہی تھا جو جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گیا تھا اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کئی مواقع پر اپنی مرضی سے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کی یقین دہانی کرائی، اس کے بعدبھی آنے والی بھارتی حکومتوں نے جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے، موجودہ بھارتی حکومت ان وعدوں سے کس طرح پیچھے ہٹ سکتی ہے، بھارت کو اقوام متحدہ، پاکستان اور سب سے بڑھ کر کشمیری عوام کے ساتھ استصواب رائے کے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد کے اس نازک موقع پر وہ پاکستان کی طرف سے غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و جبر جاری ہے ، جبکہ 11 دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر سیاسی عزائم پر مبنی غیر قانونی اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا ہے اور بھارتی حکومت کے 5اگست 2019 میں غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کو جائز ٹھرایا ، یہ غیر منصفانہ فیصلہ سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کی سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ بھارت کا 5 اگست 2019 میںغیر قانونی اور یکطرفہ اقدام اور اس کے بعد کیے جانے والے اقدامات کامقصد مقبوضہ جموںوکشمیر میں آبادی کا تناسب اور سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنا ہے، یہ اقدامات بین الاقوامی قانون اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی صریحا خلاف ورزیاںہیں۔ انتظامی اقدامات اور عدالتی فیصلوں سے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کر سکتا، ایک طرف بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہاں ہے ، دوسری طرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس سے ہندوتوا نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔ کشمیری عوام نے بھی بھارتی اقدامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے، کشمیری عوام کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ مقبوضہ جموںو کشمیر میں شہادتوں اور کشمیری رہنماوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو دبا نہیں سکا ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے بجا طور پر کہا کہ بھارت کشمیری رہنماسید علی گیلانی کی وفات کے بعد بھی ان سے خوفزدہ ہے ، حریت رہنما محمدیاسین ملک کوعمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، ایسی سزائیں صرف کٹھ پتلی عدالتیں ہی سنا سکتی ہیں۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ جموںو کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ہم مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستانی قیادت کشمیری قیادت کے ہم قدم ہے، ہم نے متعدد بار مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی، بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموںو کشمیر میں جو قربانیاں کشمیری عوام نے دی ہیں ان کو بھلایا نہیں جا سکتا، ہم سب ان قربانیوں کے مقروض ہیں، برہان وانی سمیت کشمیری عوام کی شہادتیں آزادی کی ضامن ہیں۔انہوں نے تحریک آزادی کے شہدا کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے اور قربانیاں دینے والے کشمیری رہنمائوں کی تصاویربھی دیکھیں۔بلاشبہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کایہ دورہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے بھارت کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق کے تناظر میں جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے تھا لیکن اس دورے سے بھارتی بربریت کے شکار اہل کشمیر کے حوصلوں کو مزید جلا ملی ہے ۔بھارتی ہٹ دھرمی تنازعہ کشمیر کے پرامن حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کے سامنے پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کر اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بھارت پر دباو ڈالنا چاہیے۔