بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے پھر ایکبار آزاد جموں وکشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔گوکہ بھارت میں اس وقت پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں اورسیاسی تجزیہ نگار اور اہل دانش راجناتھ سنگھ کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں،کہ بھارتی حکمران فرقہ پرستی اور ہندو انتہاپسندی کی آگ بڑھکا کر ہر حال میں انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ راجناتھ سنگھ نے دارجلنگ میں ایک ریلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کو بھارت میں ضم کیا جائے گا بلکہ یہاں کہہ ڈالا کہ وہاں کے لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔راجناتھ سنگھ اسی پر نہیں رکے بلکہ یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات اس قدر نارمل یا معمول پر آچکے ہیں کہ علاقے میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹAFSPA کو واپس لیا جاسکتا ہے۔
راجناتھ سنگھ پہلی بار ایسی ہرزہ سرائی نہیں کرچکا ہے بلکہ وہ ماضی قریب میں بھی اسی طرح کی بیان بازی کرچکے ہیں۔اب تو یہ بھارتی حکمران جماعت BJP رہنماوں کا معمول بن چکا ہے کہ وہ بھارتی انتخابات میں پاکستان کی قیمت پر ہی کامیابی سمیٹنا چاہتے ہیں۔چاہیے اس کیلئے اس خطے کو ایٹمی جنگ سے ہی دوچار ہونا پڑے۔یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے 14 فروری 2019 میں BJP نے بھارت میں دوسری بار انتخابات جیتنے کیلئے لیتہ پورہ پلوامہ میں اپنے ہی 46 فوجی اہلکاروں کو ایک حملے میں ہلاک کروایا ۔اس واقعے کے فورا بعد بھارتی حکمرانوں اور ان کے بے لگام میڈیا نے نہ صرف اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔26 فروری کو بھارتی جہازوں نے پاکستان کے مغربی شہر بالاکوٹ کے جنگلی علاقے میں پے لوڈ گرا کر یہ دعوی کیاکہ ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔بھارتی دعووئوں کو نہ صرف خود بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتوں اور رہنمائوں نے یکسر مسترد کیا بلکہ تمام عالمی ذرائع ابلاغ نے بالاکوٹ کے اس جنگلی علاقے کا دورہ کرکے بھارتی دعووں کی نفی کی جہاں پے لوڈ گرایا گیا تھا۔اگلے ہی دن یعنی27 فروری کو پاک فضائیہ نے صوبہ جموں کے دو سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں بھارتی فوجی کیمپوں کے بہت قریب اردگرد بم گرائے بلکہ بھارتی فضائیہ کے دو مگ21 طیارے بھی مار گرائے اور ایک پائلٹ ابھی نندن کو زندہ بھی پکڑ لیا۔اگر چہ ابھی نندن کو بعدازاں جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کرکے بھارت کے حوالے کیا گیا،لیکن بھارت کو عالمی سطح پر جس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا،وہ ابھی تک بھارتی حکمرانوں خاصکر مودی اور اس کے حواریوں کا پیچھا کررہی ہے۔خود امریکہ جو بھارت کا سب سے بڑا حمایتی اور حلیف ہے،نے سرکاری سطح پر اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے کہ 27 فروری 2019 میں بھارت بری طرح پٹ گیا۔امریکی اداروں اور ذرائع ابلاغ نے 27فروری کے واقعے کو ڈاگ فائٹ کا نام دیکر کہا کہ امریکہ خطے میں جس بھارت پر تکیہ یا انحصار کرتا ہے اس سے پاکستان کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔یہی ہزیمت بھارتی حکمرانوں کو چین نہیں لینے دے رہی ہے۔
آج بھارت میں پھر ایکبار پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں اور اب کی بار مودی اور بی جے پی 400 پار کا نعرہ لگارہے ہیں۔400 پار کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ بھارتی آئین کا حلیہ بگاڑ کر اس میں بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی شقیں شامل کی جائیں۔جس کا اظہار مودی اور اس کے حواری خاص کر راجناتھ سنگھ اور امیت شاہ بار بار کررہے ہیں۔بھارت کی اپوزیشن جماعتیں اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ اگر بی جے پی تیسری بار بھی برسر اقتدار آتی ہے تو بھارت کے سیکولر تانے بانے کو ختم کیا جائے گیا۔یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت کو ہندتوا ملک میں تبدیل کیا جائے گا۔
یکم جون کو بھارت میں سات مراحل پر مشتمل انتخابات مکمل ہوں گے اور 04 جون کو انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔سیاسی پنڈت بی جے پی کی پھر ایکبار کامیابی کے اشارے دےرہے ہیں البتہ 400 پار والا BJP نعرے سے اتفاق نہیں کرتے۔کیا بھارتی حکمران باالخصوص بی جے پی ٹولہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے پھر ایکبار اس خطے کو جنگ کی شعلوں کی طرف دھکیلانا چاہتے ہیں?آثار و قرائن اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جنونیت میں مبتلا بھارتی حکمران ایسا کرگزرسکتے ہیں،کیونکہ وہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور اکھنڈ بھارت کا نقشہ بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں آویزان بھی کیا جاچکا ہے۔جس کی راہ میں صرف پاکستان ہی واحد رکاوٹ ہے۔البتہ بھارتی جنونی حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نہ بھارت اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین۔اگر ایسا ہوتا تو 27 فروری 2019 میں بھارتی حکمرانوں کو ذلت و رسوائی سے نہ گزرنا پڑتا۔دوسرا مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ نے راجناتھ سنگھ کے بیان پر اس سے اڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بھارت یہ نہ بھولے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ بھارتی حکمرانوں کی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث اس خطے میں ایٹمی جنگ چھیڑ جائے اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ کشمیری عوام کو ہی بھگتنا پڑے۔فاروق عبداللہ نے راجناتھ سنگھ کے مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات کی بہتری کے دعوے اور AFSPA کو ہٹانے کو یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ بھارتی حکمران آرٹیکل 370 اور35 اے کے خاتمے سے پہلے بھی یہ دعوی کرتے تھے کہ یہ شقیں امن وامان کی راہ میں واحد رکاوٹیں ہیں۔ اب جبکہ ان دفعات کو ختم کیا گیا تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے۔فاروق عبداللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 370 اور35 اے کے خاتمے سے بھارتی فوجیوں پر حملے ہونا بند ہوگئے؟یا عسکریت میں کوئی کمی واقعی ہوئی۔آج بھی بھارتی فوجیوں پر حملے جاری ہیں اور بھارتی حکمران محض اپنے عوام کو فرقہ پرستی کی جانب دھکیلنے میں گامزن ہیں۔
راجناتھ سنگھ کا آزاد کشمیر کو بھارت کیساتھ ضم کرنے کا بیان بھلے ہی انتخابی اسٹنٹ ہو لیکن ان بیانات کو نظر انداز یا خاموشی اختیار کرنا بھی دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے۔جنونی بھارتی حکمرانوں کو انہی کی زبان میں نہ صرف جواب دینا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے بلکہ اس حوالے سے عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا از حد ضروری ہے۔کیونکہ ناعاقبت اندیش بھارتی حکمرانوں کی مجرمانہ حرکتوں کے باعث اگر یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آگیا تو وہ ایٹمی جنگ پر منتج ہوگی جس کے بعد سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔