خصوصی دن

یوم تکبیر

: محمد شہباز

1653732329یوم تکبیر وہ دن ہے جب اہل پاکستان مادر وطن کے دفاع کو ہر چیز سے بالاتر رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔28 مئی 1998: جب پاکستان کے پاس اپنے جوہری ہتھیاروں کا کامیابی کیساتھ دھماکہ کرنے اور ملک کی ناقابل تسخیر حفاظت اور تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں بچا تھا۔28 مئی 1998: جب پاکستان اسلامی ممالک کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک بن گیا ۔ 28 مئی 1998: جب پاکستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری مسلم دنیا کیلئے باعث افتخار بن گیا ۔بھارت کی جانب سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے ایٹمی دھماکے کرنے کے صرف دو ہفتے بعد ہی پاکستان نے اپنے ایٹمی تجربات کیے تھے۔ہر سال 28 مئی کو پاکستانی قوم اپنی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور آزادی کے دفاع کیلئے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتی ہے۔یوم تکبیر نے ان پاکستانیوں کے حوصلوں میں نئی قوت اورجدت پیدا کی جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے بھارتی حکمرانوں کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے سے انکار کرتے ہیں۔بلاشبہ پاکستان نے 28 مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کا غرور اور گھمنڈ خاک میں ملا دیا۔28 مئی 1998: جب پاکستان نے نہ صرف خطے میں تزویراتی یا طاقت کا توازن برقرار رکھا بلکہ بھارتی حکمرانوں کو بھی اپنی حدود میں رہنے پر مجبور کیا۔مضبوط اور مستحکم پاکستان کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی کامیابی کا ضامن ہے ۔بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم نے علاقائی امن و استحکام اور سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔28 مئی 1998: جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دیکر ایک ساتھ پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔یوم تکبیر بھارت کیلئے ایک واضح اور دوٹوک پیغام ہے کہ پاکستان کو کمزور نہ سمجھیں۔28 مئی 1998: جب پاکستان نے خطے میں خود کو ایک جوہری طاقت کے طور پر قائم کرنے کے بھارتی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔مملکت خداد کے ایٹمی دھماکوں نے اکھنڈ بھارت کے خواب چکنا چور کردیئے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع دن سے مخاصمت جاری ہے۔اس کی بڑی وجہ ایک تو برصغیر کی تقسیم ہے ،جس سے بھارت مذہبی تقسیم سے تعبیر کرتا ہے ،دوسرا مسئلہ کشمیر ۔جو کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعے اور دشمنی کی بنیادی وجہ ہے،جس پر آج تک دو جنگیں ہوچکی ہیں جبکہ کرگل کی جنگ بھی مسئلہ کشمیر کا ہی شاخسانہ تھی۔جہاں تک برصغیر کی تقسیم کا سوال ہے ،بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ سابق بھارتی وزیرا عظم انجہانی اٹل بہاری واجپائی نے فروری 1999 ءمیں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان کے وجود اور برصغیر کی تقسیم کو قبول ا ور تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ واجپائی نسبتا ایک دوراندیش سیاستدان تھے اور ان کا مشہور جملہ کہ دوست بدلائے جاسکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں۔مگر بھارتی حکمران طبقہ جو کہBJPکی کوکھ سے جنم لے چکا ہے، واجپائی کی جانب سے پاکستان کیساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ مسائل باالخصوص مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میںرکاوٹ بنا۔ورنہ آگرہ مذاکرات میں کامیابی کی بیل منڈے چڑھ چکی تھی۔اس وقت بھی BJPاور RSS کے انتہا پسندوں نے آخری وقت پر مذاکرات کو سبوتاژ کیاتھا ۔حالانکہ پاکستان اور بانی پاکستان نے کبھی برصغیر کی تقسیم کو اس تناظر میں نہیں دیکھا ،جس سے بھارت اپنے سینے پر سانپ لوٹتا ہوا محسوس کرتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو قومی نظریہ ابتدائے آفرنشین سے چلا آرہا ہے اور یہ تاصبح قیامت جاری و ساری رہے گا اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ جب دو اقوام یا مذاہب کے درمیان کوئی ایک نظریہ بھی آپس میں مطابقت نہیں رکھتا ہو تو ایسے میںعلحیدہ اور جدا گانہ حیثیت اختیار کرنا کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے۔مسلمانوں کیلئے ویسے بھی گنجائش نہیں ہے کہ ایک اللہ،ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم،ایک قرآن ،ایک کعبہ و قبلہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہوئے ایک ایسی قوم کیساتھ بود و باش ،طرز زندگی اور معاشرت قائم رکھیں جو مختلف رہن سہن ،توہمات اور چھوٹے سے لیکر بڑے بھگوانوں کی پوجا کرتی ہو۔ممکن نہیں ہے۔اسی لیے پاکستان اور اہل پاکستان تقسیم برصغیر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
اب جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے ۔یہی وہ تنازعہ ہے جس نے دونوں ممالک کو عملا ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا اور برصغیر کا یہ خطہ مسئلہ کشمیر کے باعث ہی انگاروں پر لیٹا ہوا ہے۔تنازعہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے بہتر تعلقات کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے۔اب تو مسئلہ کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور ایک معمولی چنگاری نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرسکتی ہے۔یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کا باعث ہے اور اس خطے میں ہتھیاروں کی جو دوڑ ہے وہ بھی مسئلہ کشمیر کا ہی نتیجہ ہے۔مسئلہ کشمیر کا حل جہاں اس خطے کے امن واستحکام اور پرامن بقائے باہمی کیلئے ناگزیر ہے ،وہیں یہی تنازعہ ایٹمی جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے اور اس تنازعے پر جب بھی پاک بھارت جنگ چھڑ جائے گی تو وہ عام اور روایتی ہتھیاروں کی نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی،کیونکہ جس ملک کو بھی اپنی سلامتی کے وجود کا خطرہ لاحق ہوا تو جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے گزیر نہیں کرے گا۔پاکستان 1971 میں ایک بازو سے محروم ہوچکا ہے۔جس میں بھارتی مداخلت کا عنصر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔لہذا جب کبھی مستقبل میں دونوں ممالک میں جنگ ہوتی ہے تو ایٹمی ہتھیار وں کا استعمال ایک ایسی حقیقت ہوگی جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔مشرقی پاکستان کی علحیدگی نے ہی پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی جانب مائل کیا ۔کیونکہ ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا گیا ۔اگر مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات کے ذریعے حل ہوجائے تو یقینی طور پر برصغیر جنوبی ایشیا نہ صرف جوہر ی بلکہ دوسرے جان لیوا ہتھیاروں سے پاک ہوگا ،جو محض انسانوں کی تباہی کا باعث ہیں۔دوسرا دونوں ممالک بالخصوص بھارت اپنے بجٹ کا بیشتر حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔جس کے جواب میں پاکستان کو بھی خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجاتا ہے تو دونوں ممالک ہتھیاروں کے بجائے اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر پیسہ خرچ کرسکتے ہیں،جس کے بعد ہی عوام کی بنیادی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں نہ تو عوام کی فلاح و بہبود ممکن ہے اور نہ ہی پاک بھارت تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔یہ دونوں ممالک کیساتھ ساتھ عالمی برادری کیلئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
1998 کے اوائل میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے غوری میزائل کے تجربے نے بھارتی حکمرانوں کے اوسان خطا کیے تھے اور اسی میزائل تجربے کے جواب میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے اور پھر پاکستان کو بھی مجبورا بھارتی دھماکوں کا جواب دینا پڑا۔جن کا پورے پاکستان میں دن مناکر اس عزم کی تجدید کی جاتی ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ ہر چیز پر مقدم ہے۔حالانکہ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے تمام تر ترغیب و تحریص اور لالچ کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔جس میں پاکستان کیلئے بڑا اقتصادی پیکج بھی شامل تھا۔مگر پاکستان کے تمام اداروں نے امریکی لولی پاپ کو ٹھکرا دیا تھا۔جبکہ پاکستانی سائنسدانوں بالعموم اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بالخصوص اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر واضح کیا تھا کہ ہم نے اپنی پوری توائنایاں صرف اسی دن کیلئے وقف کی تھیں۔جس کے بعد بلوچستان میں چاغی کے راس کوہ پہاڑوں کا انتخاب کیا گیا جہاں 28 مئی1998 میں زیر زمین ایک ساتھ پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے نہ صرف 11سے 13مئی کے درمیان بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کا جواب دیکر حساب برابر کیا بلکہ دو روز بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں ایک اور دھماکہ کیا گیا۔28 مئی کو کمیشن کے ٹریگرنگ میکینزم ڈیزائن کرنے والے ایک نوجوان آفسر محمد ارشد کو ڈیوائسز چلانے میں بٹن دبانے کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔انھوں نے اللہ اکبر کہتے ہوئے اس عمل کی ابتدا کی اور پھر 1998 کی سہ پہر 3:16 پر ایک ہی وقت میں پانچ زیرِزمین دھماکوں سے راس کوہ لرز اٹھا۔ دھول کے بادلوں نے سورج کا چہرہ چھپا لیا اور سیاہ گرینائٹ سفید ہو گیا۔ڈاکٹرثمر مبارک مند سمیت وہاں موجود تما م سائنسدان اللہ اکبر پکار اٹھے۔میاںنواز شریف نے28 مئی کی شام کو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہم نے گزشتہ دنوں کے بھارتی ایٹمی تجربات کا حساب چکا دیا ہے۔گو کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کیلئے نہیں بلکہ اپنی سلامتی اور خودمختاری کو قائم رکھنے کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی جس میں بجلی کا حصول سرفہرست ہے ۔قوموں کی ترقی میں ایک اہم جز ہے۔ جس سے اگر استعمال میں لایا جائے تو؟بھارتی حکمرانوں کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے فورا بعد پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اور لہجہ اختیار کیا گیا۔جس کے دو مقاصد تھے ۔ایک پاکستان ایٹمی دھماکے کرکے پابندیوں کی زد میں آجائے،دوسرا کیا پاکستان واقعی ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ملک ہے؟پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عالمی پابندیاں قبول کیں لیکن ایٹمی تجربات کر ڈالے اور دوسرا بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیکر یہ ثابت کیا کہ تمہاری چوہدراہٹ نہ پہلے قبول تھی اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ایٹمی دھماکوں کے بعد ناعاقبت اندیش بھارتی حکمرانوں نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا البتہ جب1998 میں آج کے دن بلوچستان میں چاغی کے راس کوہ پہاڑوں نے اپنا رنگ تبدیل کیا تو بھارتی حکمرانوں کی سانسیں بھی رک گئیں۔پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خالق اور دنیا کے نامور سائنسدان مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھارتی حکمرانوں کی جانب سے پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کو ٹینس بالیں قرار دینے کے جواب میں صرف ایک ہی جملہ کہا تھا کہ اس طرح باتیں بیوقوف ہی کرسکتے ہیں۔جس کے بعد بھارتی حکمران منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔

 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button