16 اکتوبر کو غزہ کے رفح علاقے میں ایک تباہ شدہ عمارت کی دوسری منزل پر زخمی حالت میں صوفے پر پرسکون،طمانیت اور تمکنت کیساتھ بیٹھے شخص نے پوری دنیا کو فتح کرلیا ۔وہ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں طلاطم پیدا کرکے جذبات کا ایسا طوفان برپا کرکے چلا گیا کہ مدتوں تک اس طوفان اور انداز کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔وہ آج کے دن میں ہر انسان کے ذہن پر دستک دے چکا ہے۔وہ برسات میں طغیانی کا نہیں بلکہ جذبات و احساسات کا نام ہے۔اس نے دلوں کو فتح کرلیا کیونکہ وہ فتح گر جو تھا ۔دشمن انہیں سرنگوں میں تلاش کرکے خاک چھانتا رہا مگر وہ دشمن کو اپنے سامنے جوتے کی نوک پر نچاتا رہا۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ اس نے 30 سے زائد یرغمالی انسانی ڈھال کے بطور اپنے ساتھ رکھے اور وہ بارودی جیکٹ پہنے دشمن سے چھپتا پھرتارہا لیکن وہ اپنا دایاں بازو اپنے جسم سے کٹا ہونے کے باوجود اپنے بائیں بازو کے ہاتھ میں چھڑی لیے دشمن کے بھیجے گئے ڈرون پر حملہ آور ہوا۔اس نے اپنے چہرے کو اپنے ارض وطن کی پہنچان اور شناخت والا رومال جس سے کفایہ کہا جاتا ہے،چھپایا تھا۔اس نے اپنا سامان حرب کلاشنکوف اور وہ پستول جو 2018 میں غزہ میں ہلاک ہونے والے ایک اسرائیلی فوجی سے بطور مال غنیمت حاصل کی تھی اور جس سے وہ ہمیشہ عوامی اجتماعات میں فاتحانہ انداز میں لہراتے تھے ،اپنے کندھے پر لٹکائی اور پتلون میں رکھی تھی۔اس نے دنیا کی نمبر ون ٹیکنالوجی کو شکست فاش سے دوچار کیا ۔جس پر امریکی حیران و پریشان تھے۔وہ کسی عسکری اکیڈمی کا فارغ التحصیل نہیں تھے مگر اس نے دنیا کے تمام عسکری ماہرین کو زچ کیا۔ان کے پاس جو زاد راہ ملا ،اس پر دشمن اپنے دانت پیستے رہ گیا۔جس میں ایک کلاشنکوف،ایک اسرائیلی ساخت پستول،تسبیح،ایک عدد ٹافی،کائنات کی عظیم اور لازوال شخصیت خاتم النبیین ۖ کے اذکار پر مشتمل دو کتابچے اور 40000 شیکل پر مشتمل کرنسی شامل ہیں۔اس نے اپنی زندگی کا آخری معرکہ بھی لڑا تو خوب لڑا۔تاریخ نے اس سے ہمیشہ کیلئے اپنے آپ میں امر کردیا۔وہ اس کا مرہون منت بھی نہیں تھا ،لیکن تاریخ نہ جانے کتنے عرصے سے انہیں اپنا ٹائٹل بنانے کے انتظار میں تھی۔وہ بہادر تھا ہی لیکن دشمن نے اس قدر گمان بھی نہیں کیا تھا۔وہ پیکر شجاعت تھے ہی لیکن ان کی شجاعت نے دنیا کو ان کے سامنے خود کو بہت چھوٹا محسوس کرنے پر مجبور کیا۔وہ 62 برس کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ تند ،تیز اور پھرتیلا تھا۔ ان کی شہادت سے قبل ویڈویو کو جب دشمن نے ذرائع ابلاغ کیلئے یہ مقصد حاصل کرنے کی غرض سے وائرل کیا کہ اس سے اہل غزہ کو خوفزدہ کیاجاسکے ،مگر شہید قائد کی آخری ویڈیو نے گندی نالی کے کیڑے اور گٹر کی پیداوار نتین یاہو کو چاروں شانے چت کردیا۔
پوری دنیا کے میڈیا بشمول مغربی میڈیا نے انہیں مزاحمت کی علامت گردانا ۔ اپنی مظلوم مگر حریت کیش اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی قوم نے انہیں پہلے سے زیادہ اپنی محبت اور عقیدت سے نوازا اور اہل فلسطین کے سانسوں کی ترجمان حماس نے اپنے قائد کو عقیدت کے جو پھول نچھاور کیے ،اس نے دونوں کو امر کردیا۔ٹھیک اپنے قائد کی جدائی کے دو دن بعد اسرائیل کو ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ مدتوں تک اس کی ٹیسیں محسوس کرتا پھرے گا۔ 401 ویں اسرائیلی بریگیڈ کی کمانڈ کرنے والا کرنل دقسا جونہی غزہ میں بکتر بند گاڑی سے باہر آیا تو اس سے ایک باردوی سرنگ دھماکے کا نشانہ بنایا گیا ،اگر چہ اس کے تین محافظ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور کرنل دقسا بھاگ رہا تھا تو بھاگتے ہوئے اس سے حماس کے ایک ماہر سینیپر نے گردن میں گولی مار کر اس کا کام تمام کیا۔یہ حالیہ عرصے میں غزہ میں ہلاک کیا جانے والا دشمن کا سب سے بڑا فوجی عہدیدار ہے۔جس کا اعتراف دشمن نے خود بھی کیا ہے۔ دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے اپنی ڈیجیٹل تخلیق کے ذریعے رفح کے اس گھر میں صوفے پر بیٹھے طاقتور ترین شخص کی میمز کی بھر مار کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ” سید الطوفان” کا لقب بھی دے دیا۔ اس نے پوری دنیا کو بالعموم اور مزاحمت کرنے والوں کو بالخصوص مزاحمت میں زندہ رہنے اور زندگی تلاش کرنے کا درس بھی دیا۔اس کا انداز آج فلسطین کی گلی محلوں اورکھیت کھلیانوں میں اپنایا جارہا ہے۔چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے تک اپنے چہروں کو فلسطینی کفایہ سے ڈھانپتے ،ہاتھ میں چھڑی اور صوفے پر بیٹھنے کا انداز اپنارہے ہیں۔وہ دشمن کومطلوب ترین افراد میں پہلے نمبر پر تھا،انہیں 07اکتوبر 2023 میں طوفان الاقصی کا تخلیق کار سمجھا اور تسلیم کیا جاتا تھا۔جب ارض فلسیطین کے بیٹوں نے 17 سالہ طویل ترین اسرائیلی محاصرے اور ان کی زندگی عملا جہنم بنانے کے بعد ناجائز امریکی ریاست کے اندر ایک ایسی کاروائی کی ،جس نے اس ناجائز ریاست کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔گو کہ تب سے لیکر آج کے دن تک اہل فلسطین ہر روز ایک نئی قیامت سے گزررہے ہیں ،مگر ا ن کی زبان سے کوئی شکوہ نہیں بلکہ اللہ کی کبریائی کا ڈنکا بجایا جاتا ہے ۔ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے۔”سورہ العمران”
غزہ کے ہسپتالوں میں رضا کارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے امریکی ڈاکٹر بہت پہلے اس بات کا انکشاف کرچکے ہیں کہ اسرائیلی بربریت میں ایک لاکھ فلسطینی اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں۔اقوام متحدہ عملا مرچکی ہے اور ا ب اس سے صرف تابوت میں ڈالنا باقی رہ گیا ہے۔مگر ان حالات میں بھی غزہ کے بیٹے پورے قد وکاٹ کیساتھ مقتل میں کھڑے یہ اعلان کررہے ہیں کہ بھلے ہی امت بالخصوص عربوں نے ان سے آنکھیں پھیر لی ہوں ۔وہ خون کے آخری قطرے اور سانس تک ایک غلیظ دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔انہی بیٹوں کا سالار جنہیں دنیا یحیی محمد ابراہیم سنوار کے نام سے جانتی ہے، مقتل کے اندر پنجہ آزمائی کرتے کرتے اپنے سینے پر کاری وار سہا اور سید الانبیا ۖ کے اس فرمان کا عملی مصداق ٹھرے ” میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن سے برسرے پیکار رہے گا ، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ کہاں ہوں گے ؟آپ نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے اردگرد اطراف میں ہوں گے۔
یحیی محمد ابراہیم سنوارکی زندگی میں سمجھوتہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔وہ دشمن اور دوست میں فرق کرنا جانتے تھے۔ذرائع ابلاغ میں یہ پروپیگنڈا بھی کرایا گیا کہ انہیں اسرائیل کیساتھ جنگ بندی معاہدے کے بدلے غزہ سے باہر جانے میں سہولت فراہم کی جائے گی،لیکن غزہ کے اندر ان کی شہادت نے یہ ثابت کیا کہ ان کی تحریک مزاحمت کو کمزور کرنے کی غرض سے بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا تھا۔مگر وہ اور ان کی جماعت حماس اس پروپیگنڈے میں سے بھی سرخرو ہوکر نکلی۔انہوں نے اپنے ساتھ صرف دو محافظ رکھے تھے۔وہ انسانی ذرائع استعمال کرتے تھے،جبکہ خود کو مواصلات کے اس چکا چوند میں کوسوں دور رکھا۔یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔انہیں رواں برس31 جوالائی کو تہران میں ان کے پیشرو جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد تحریک مزاحمت حماس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔19 اکتوبر 1962 میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحیی ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی،وہ 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات سر انجام دیتے رہے اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔ 1980 میں حماس میں شمولیت اختیار کی اور صرف 08برس بعد انہیں گرفتارکرکے اسرائیلی جیلوں کی زینت بنایا گیا اور یوں انہوں نے ایک چوتھائی صدی عقوبت خانوں میں گزاری۔جہاں انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور پھر اسرائیلی جیلوں کی انتظامیہ کا مطالعہ بھی کیا۔وہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔ 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کیساتھ انہیں بھی رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا باعث بنی۔بلاشبہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے ،جس نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں بدلا جو ناصرف اسرائیل بلکہ اس کے حاشیہ برداروں کیلئے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔یحیی سنوار جس نے ایک پناہ گزین کیمپ میں آنکھ کھولی تو وہیں دوسرے پناہ گزین کیمپ رفح میں اپنی جان اللہ کے راستے میں قربان کی ۔دنیا بھر میں انہیں عقیدت کے پھول نچھاور کیے جارہے ہیں ،ایران کے مذہبی پیشوا جناب آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں اہل فلسطین کی جدوجہد آزادی کا محور قرار دیا ،وہیں دو خواتین جناب اسماعیل ہانیہ کی بہو ایناس ہنیہ اور امیر قطر کی والدہ شیخہ موزا بنت ناصرنے جو منظوم خراج عقیدت امت کے اس مرد حر جناب یحیی سنوار کو پیش کیا ہے،وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن اور اس سے بڑھ کر خراج عقیدت شاید نہیں ہوگا۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی بہو ایناس ہنیہ نے اپنے انسٹاگرام اکاونٹ پر اس صوفے کی تصویر شیئر کردی ہے۔اپنے اکاونٹ سے شیئر کی گئی تصویر کے کیپشن میں شہید اسماعیل ہنیہ کی بہو نے لکھا کہ ایک گھریلو خاتون فخر کیساتھ وہ صوفہ دکھا رہی ہے جس پر وہ عظیم شخص یحیی سنوار بیٹھے ہوئے تھے۔ ہاں، اللہ کی قسم، یہ ایک رشک کرنے والی بات ہے، اس گھر کے مالکوں پر رشک آتا ہے، اللہ آپ کی حفاظت کرے اور آپ کو ہمیشہ آپ کے اس گھر میں سلامت رکھے جس پر آپ کو ہمیشہ فخر ہوگا۔
امیرِ قطر کی والدہ شیخہ موزا بنت ناصر نے یحیی سنوار کی شہادت پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور ان کیلئے پیغام بھی جاری کیا ہے۔سوشل میڈیا پر امیرِ قطر تمیم بن حمد آلِ ثانی کی والدہ شیخہ موزا بنت ناصر نے لکھا ہے کہ یحیی نام کا مطلب ہے وہ جو زندہ ہے، انہوں نے اسے مردہ سمجھا لیکن وہ زندہ ہے۔شیخہ موزا بنت ناصر نے لکھا کہ اپنے نام یحیی بن زکریا علیہ السلام کی طرح زندہ رہے گا اور وہ ختم ہو جائیں گے۔
بلاشبہ اللہ کی راہ میں مزاحمت کرنے والے کل بھی زندہ تھے ،آج بھی زندہ ہیں اور تاصبح قیات زندہ رہیں گے۔جناب یحیی سنوار ارض فلسطین کے نہ پہلے شہید ہیں اور نہ ہی آخری ۔ان سے پہلے ان کے کئی پیشرو اپنی جانیں اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں۔جن میں اس تحریک کے بانی جناب شیخ احمد یاسین بھی شامل ہیں۔ایک چلا جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے۔ یحیی سنوار نے ارض فلسطین کے بچوں (حماس) کو باپ کی طرح سنبھال کر رکھا تھا ۔اب جبکہ وہ نہیں رہے تو ان بچوں کو اب خود ہی آگے بڑھنا ہوگا۔
شاعر نے جناب یحیی سنوار کیلئے ہی کہا تھا:
میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں،کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر