مواصلاتی ذرائع انتظامی کریک ڈاﺅن کا پہلا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟
سرینگر 04 ستمبر (کے ایم ایس) غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ ہ جموں و کشمیر سے باہر رہنے والے ہزاروںکشمیری خوف ، غصے اور شکوک و شبہات میں مبتلاہیں کیونکہ وہ بدھ کوبزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعدقابض حکام کی طرف سے نافذکی گئی مواصلاتی ناکہ بندی کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کی خیریت معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی پنجاب میں کام کرنے والے ایک کشمیری ابراہیم سلطان نے صحافیوںکو بتایا کہ حکام کی جانب سے مواصلاتی ذرائع پر پابندی عائد کرنا غیر انسانی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے دادا بستر مرگ پر ہیں اور بدقسمتی سے مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کشمیر میں مواصلاتی ناکہ بندی سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس سے نہ صرف میری بلکہ باہر رہنے والے ہر کشمیری کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والی ایک اور کشمیری عفرہ گلزارنے جس کا بھائی پونے کی ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کرتا ہے، اپنے بھائی کے حوالے سے اسی قسم کی تشویش کا اظہار کیا۔عفرہ کے مطابق اس نے آخری بار اپنے بھائی سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کوبات کی تھی جب وادی میں موبائل نیٹ ورکس بند نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے کہاکہ مواصلاتی ناکہ بندی کی وجہ سے میں اپنے بھائی کی سلامتی کے حوالے سے پریشان ہوں جس کے ساتھ گزشتہ 2 دن سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہم اپنے بھائی سے کب بات کرسکیں گے۔ ایک نوجوان کشمیری اسرار امتیازنے جو اس وقت نئی دہلی میں مقیم ہے، کہا کہ جمعرات کی صبح کافی خوفناک تھی کیونکہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں غیر متوقع ناکہ بندی سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تصور کریں صبح اٹھتے ہوئے اپنے اہلخانہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کے دوران آ پ کوپتہ چلتا ہے کہ کشمیر سے مواصلاتی رابطے منقطع ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے تو پھرمواصلاتی ذرائع انتظامی کریک ڈاﺅن کا پہلا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟