بھارت

بھارت میں نفرت انگیز تقاریر کی باعث خطرناک صورتحال بن چکی ہے: نیویارک ٹائمز

نیویارک 08 فروری (کے ایم ایس) نیویارک ٹائمز کی ایک تشویشناک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت بھر میں مسلم مخالف تشدد یہاں تک کہ نسل کشی کا پرچار آہستہ آہستہ خطرناک رخ اختیارکررہا ہے اور ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے اعلیٰ رہنما خاموش ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نیویارک ٹائمز کے نامہ نگاروں کی ایک ٹیم کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میںنفرت انگیز تقاریر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے پیمانے پر قتل کے سانحات کو جنم دے رہے ہیں جبکہ ہندو پجاریوںکا ایجنڈا پہلے ہی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار وںمجیب مشال، سوہاسنی راج اور ہری کمار نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ گاﺅ رکھشکوں نے گائے کی توہین کرنے کے الزام میں لوگوں کو مارا پیٹا، لوگوںکو ٹرینوں، ہوٹلوں اور گھروں سے اس شبے پرگھسیٹ کر باہر نکالا کہ شاید مسلمان مردوں نے ہندو خواتین کو ورغلایا ہے۔یہ لوگ مذہبی اجتماعات میں گھس جاتے ہیں جہاں انہیں شبہ ہے کہ لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ جینو سائیڈ واچ کے بانی گریگوری اسٹینٹن نے جنہوں نے 1990 کی دہائی میں روانڈا میں ہونے والے قتل عام سے پہلے اسی طرح کی وارننگ جاری کی تھی، امریکی کانگریس کی بریفنگ میں بتایا کہ نسل کشی کا باعث بننے والے خطرناک اور امتیازی اقدامات بھارت میں جاری ہیں۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ میانمار اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور نفرت انگیز تقاریرکا بآسانی پھیلاو¿ تشدد کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں فرق یہ ہے کہ فوج کے بجائے ہجوم کارروائی کرے گا۔ آپ کو اسے ابھی روکنا ہوگاکیونکہ ایک دفعہ جب ہجوم صورتحال کو اپنے قابو میں کرلیتا ہے تویہ جان لیوا ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست اتر پردیش میں داسنا دیوی مندرجہاں یتی نرسنگھانند چیف پجاری ہیں، ایسی علامات سے بھر اہے جو ایک”دھرم یودھ“ یا مذہبی جنگ کی تیاری کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک پجاری نے ہندوﺅں سے کہاکہ میرے شیرو اپنے ہتھیاروں کی قدر کروجس طرح وفادار بیویاں اپنے شوہروں کی قدر کرتی ہیں۔مندر میں مسلمانوںکے داخلے پر پابندی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پجاریوں کے غصے کی وجہ وہ احساس مظلومیت ہے جس کی بنیاد 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعدپڑی ہے۔جب پاکستان بڑے پیمانے پر خونریزی کے بعد بھارت سے الگ ہوا اور سیکڑوں ہزاروں افراد مارے گئے،دائیں بازو کے ہندو اس بات پر مشتعل ہوئے کہ ان کے اسلاف نے بھارت کو ایک سیکولر جمہوریہ میں تبدیل کردیا۔وہ ایک ہندو انتہا پسند کے ہاتھوں موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل کا جشن مناتے ہیں جو عدم تشدد کی جدوجہد کی ایک علامت تھے لیکن ان کے نزدیک مسلمانوں کے خیر خواہ تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہریدوار کی تقریب میں ایک راہب پوجا شکن پانڈے نے گاندھی کے قتل کی نقل اتاری اور ان کے پتلے پر فائرنگ کی اورپتلے سے خون بہنے لگا۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کے نظریے کو تشکیل دینے والی قوتیں آہستہ آہستہ بھارت کی سیاست پر غلبہ پانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے صدیوں پرانی دائیں بازو کی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک متحرک کارکن کے طور پر کئی دہائیاں گزاری ہیںجس کے ساتھ گوڈسے کا تعلق تھا اور ان کی پارٹی اس گروپ کو
اپنے سیاسی نظریے کے سرچشمے کے طور پر دیکھتی ہے اور ووٹرز کو متحرک کرنے ا ور کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے اس کے رضاکاروں کے وسیع نیٹ ورک پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو مودی نے خود دیکھا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کس طرح بے قابو خونریزی میں بدل سکتی ہے۔2002 میں ایک ٹرین میں آگ لگنے سے 59 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ وجہ متنازعہ تھی لیکن پرتشدد ہجوم نے جواب میں مسلمانوںکو نشانہ بنایا جس سے 1,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور بہت سے لوگ زندہ جلا دیے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب وہ 2014 میں معاشی ترقی کے نعرے پر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوئے تو امید تھی کہ مودی غصے کو قابو میں کرلیں گے لیکن وہ ”پہلے ہندو “کے ایجنڈے کی طرف لوٹ گئے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دیتا ہے۔2017 میں مودی نے زعفرانی لباس میں ملبوس راہب یوگی آدتیہ ناتھ کو اتر پردیش کی قیادت کرنے کے لیے منتخب کیا اور اس نے شادی کے ذریعے مذہب کی تبدیلی پر پابندی کے لیے قانون سازی کی اور اسے”لو جہاد“کا نام دیاجس میں بقول ان کے مسلمان مرد ہندو خواتین کو تبدیلی مذہب کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ نے دوبارہ انتخاب کے لیے اپنی مہم شروع کی توان کے نوجوان کارکنوں نے نئی دہلی میں اسی وقت ایک اجتماع منعقد کیا جس وقت ہند و پجاریوں کی تقریب ہورہی تھی۔ اپنے پیچھے آدتیہ ناتھ کی تصویر کے ساتھ شرکاءنے بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا حلف اٹھایا، چاہے اس کے لیے قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایک مصنف دھیریندر جھاجنہوں نے ہندو قوم پرستی کے عروج کا مطالعہ کیا ہے، کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ انتہا پسند اب بھارت کی سیاست پر اس طرح حاوی ہیں کہ تشدد کا مطالبہ کرنے والے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب تک اس سے نمٹا نہیں جاتا ہے کس قسم کے نتائج ہو سکتے ہیں؟میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔رپورٹ میں کہاگیا کہ ہریدوار کو تشدد کی کال کے لیے منتخب کرنا اسٹریٹجک تھا کیونکہ اس شہرمیں ہرسال لاکھوں یاتری مذہبی تہواروںمیں شرکت کے لئے آتے ہیں۔شہر کے سب سے بڑے ہندو فیسٹول کے منتظم پجاری پردیب جھا نے کہاکہ انہوں نے یہ خیال دیا کہ ایک ہندو ریاست تشدد کے ذریعے نہیں بلکہ بھارت کے مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے پر زور دیا جائے کیونکہ بھات میںایک وقت ہر کوئی ہندو تھا۔اپنی تشددپسند بیان بازی کے لیے بدنام منتظم نرسنگھانند نے اس کے بالکل برعکس کرتے ہوئے نام کمایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ اسے اس طرح دیکھ رہا ہے کہ بھارت کے مسلمان جو آبادی کا 15 فیصد ہیں، ایک دہائی کے اندر اندر ملک کو ایک مسلم ریاست میں بدل دیں گے۔ اس طرح کے نتائج کو روکنے کے لیے انہوں نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہے کہ وہ طالبان اور داعش کورول ماڈل بناکرمرنے کے لیے تیاررہیں۔2020 میں نرسنگھا نند مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے طور پر دیکھے جانے والے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مہینوں سے جاری مظاہروں کے دوران تناو¿ پھیلانے والے سخت گیر لوگوں میں شامل تھے۔ انہوں نے ”آخری جنگ“کی زبان استعمال کرتے ہوئے تشدد پر زور دیا۔ انہوں نے کہاتھا کہ وہ جہادی ہیں اور ہمیں انہیں ختم کرنا ہو گا۔نئی دہلی میں فسادات کے دوران50 افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی وارننگ کے باوجود نرسنگھانند اور ان کے ساتھی پجاریوں نے قومی ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر اپنے نفرت انگیز پیغامات دہرائے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button