سرزمین بے آئین: کشمیری صحافی مودی کے خوف سے اپنے نام سے خبرنہیں چلاتے
سرینگر 28 فروری (کے ایم ایس)ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ مودی کی فسطائی بھارتی حکومت صحافیوں کے خلاف اپنے شیطانی کریک ڈاو¿ن کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں میڈیاکو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ”کشمیری صحافیوں کا تعاقب“ کے عنوان سے یہ کہانی اس کے گمنام مصنف سمیت کئی پہلوﺅں سے بہت دلچسپ ہے۔ اس میں لکھاہے کہ اس کہانی کے رپورٹر نے جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ۔ جب صحافی خصوصی خبروںکے لیے بائی لائنز نہیں لیتے تو وہ ایک ایسی سرزمین میں رہ رہے ہیں جہاں قانون کی نہیں حکمران کی حکمرانی چلتی ہے۔یہ کہانی” دی کشمیر والا“ کے ایڈیٹر انچیف فہد شاہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے بھی سنسنی خیزہے، جنہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک خاندان کا دعویٰ شائع کیا تھا کہ ان کا بیٹا جسے بھارتی قابض فورسز نے گولی مار کر قتل کیا تھا، عسکریت پسند نہیں تھا۔ یہ دعویٰ پولیس کے اس موقف سے متصادم تھاجسے کشمیر والا نے بھی شائع کیا تھا۔کہانیاں اکثر ان حدود کی وضاحت کرتی ہیں جن سے آگے صحافی تحقیقات نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجودفہد شاہ کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں سچ وہی ہے جو حکومت کہتی ہے، یہ اتنا ہی ناقابل تردید ہے جتنا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، یہ دعویٰ گیلیلیو نے چار صدیاں پہلے کیا تھا اور اس کی وجہ سے اس کوعتاب کا نشانہ بھی بنایاگیاتھا۔ کشمیر میں بہت سے گیلیلیوس ہیں۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے کم از کم 35 صحافیوں سے پوچھ گچھ کی گئی، چھاپے مارے گئے، حملے کئے گئے یا مقدمات درج کئے گئے۔
20 فروری کو ایک اخبار نے خبر دی کہ صحافی گوہر گیلانی مفرور ہیں۔گیلانی کو پلوامہ کی ایک عدالت نے امن کے لیے خطرات پیدا کرنے کے الزام میں طلب کیا تھا۔ چونکہ اس نے سمن کا جواب نہیں دیا، عدالت نے پولیس سے کہا کہ گیلانی کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ پولیس اسے ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ گیلانی فہد شاہ جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے ہیں۔اخبار نے یہ بھی کہا کہ پلوامہ میں پوسٹر منظر عام پر آئے تھے جس میں گیلانی کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لئے 50,000 روپے نقد انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایک خودساختہ سول سوسائٹی گروپ کی طرف سے جاری کردہ پوسٹر میں گیلانی کو ایک ”مبینہ صحافی“کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ”دہشت گردی کا سٹینو گرافر“ہے۔ زبان میں خوفناک لہجہ ہے۔ کیا ہم گیلانی پر روپوش ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں؟گیلانی پر خودساختہ سول سوسائٹی گروپ کے پوسٹر کو سوشل میڈیا صارفین نے اس بات کا ایک اور ثبوت قرار دیا کہ بھارت کشمیریوں کو کس طرح دیکھتا ہے۔جواب کے لیے صحافی پردیپ میگزین کی طرف جاتے ہیں۔ میگزین ایک کشمیری ہے جو اپنے آباﺅ اجداد کی تلاش میں کشمیر کے متعدد دورے کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک سفرکے دوران ہوائی جہاز میں ان کے ساتھ بیٹھے ایک پیراملٹری اہلکار نے ان سے کہاکہ ہم دشمن کے علاقے میں ہیں، مقامی لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں اور چاہے ہم کچھ بھی کریں، ماریں یا پیار کریں، وہ ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ 2013 میں میگزین نے بھارتی ٹیم کے لیے منتخب ہونے کے بعد کرکٹر پرویز رسول کے آبائی شہربجبہاڑہ کا سفر کیا۔ بیس سال پہلے بھارتی فوجیوں نے بجبہاڑہ میں مظاہرین پر فائرنگ کرکے درجنوںافراد کو شہید کیاتھا۔میگزین کو بجبہاڑہ کے رہائشیوں نے کہا کہ رسول کے انتخاب سے وہ 1993 کی فائرنگ کو فراموش نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہوں نے اپنی وفاداری بھارت کی طرف منتقل کی ہے۔ ان کا پرویزسول اگر پاکستان کی فتح کی راہ میں حائل ہوتا ہے تو وہ اس کی حمایت بھی نہیں کریں گے۔میگزین کی کتاب مسابقتی بیانیوں کو جگہ دیے بغیرکشمیری صحافیوں کے خونی ماضی اور حال میں ہونے والے تکلیف دہ تجربات کی اپنی یادداشت کو ’قومی‘ موقف پر چلنے کے امکان پر روشنی ڈالتی ہے۔ کہانی کے تمام پہلو بتانا بہرحال ایک صحافتی فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ صرف حکومتی موقف شائع کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جیسا کہ کہانی سے ظاہر ہوتا ہے جوکشمیری صحافیوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کر رہی ہے۔