برطانوی مورخ کا تنازعہ کشمیر کوبین الاقوامی ثالثی کے ذرےعے حل کرنے پر زور
اسلام آباد یکم مارچ (کے ایم ایس) ممتاز برطانوی مو¿رخ، مصنفہ، اسکالر اور سوانح نگار وکٹوریہ شوفیلڈ نے تنازعہ کشمیر کوبین الاقوامی ثالثی کے ذرےعے حل کرنے پر زوردیاہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق جنوبی ایشیا اور تنازعہ کشمیر میں خصوصی دلچسپی رکھنے والی برطانوی مو¿رخ نے اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں پیر کو کشمیر کے موضوع پر ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی شملہ معاہدہ دونوں جوہری ہمسایوں کو کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کودوطرفہ ذرائع سے حل کرنے کا پابند نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ 1972 کے معاہدے کے مطابق دونوں ممالک اس مسئلے کو دو طرفہ یا باہمی اتفاق رائے سے کسی دوسرے ذریعے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاہدے کی اس شق کو اس مسئلے پر بین الاقوامی ثالثی طلب کرنے کے لیے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 میں جنگ کے بعد بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں جولائی 1972 میں امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کا مقصد کشیدگی کو ختم کرنا اور تمام متنازعہ مسائل کے حل کے لیے دو طرفہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔شوفیلڈ نے کہا کہ تنازعہ کشمیر عالمی برادری کی توجہ اور ثالثی کا تقاضا کرتا ہے کہ خطے کے لاکھوں باشندوں کے ساتھ ساتھ اسے مستقبل میں امن کے لیے حل کیا جائے جس کا پاکستان اور بھارت کو حق ہے۔شوفیلڈنے جنہوںنے کئی بار جموں وکشمیر کے دونوں اطراف کا دورہ کیا ہے، اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں لوگ اب بھی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہاں ہر روز متعدد شہریوں کو قتل اور گرفتارکیاجارہاہے اور مسلح فوجی سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔انہوں نے مقبوضہ وادی کی صورتحال کو سنگین انسانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ چین سمیت متعدد فریقین کی شرکت سے طویل عرصے سے جاری تنازعہ کشمیر کو حل کیا جانا چاہیے۔ بحث میں مجاہد گیلانی اورنظربندکشمیری رہنماﺅں قاسم فکتو اور آسیہ اندرابی کے بیٹے احمد بن قاسم سمیت مقبوضہ جموں وکشمیرکے کئی نوجوان کارکنوں نے حصہ لیا۔افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین نے کہا کہ پاکستان نے متعدد مواقع پر اس مسئلے کو بات چیت اور بین الاقوامی ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بھارت اپنے یکطرفہ موقف پر قائم ہے۔ابرارحسین نے جو پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے وائس چیئرمین بھی ہیں، اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیری عوام اس بین الاقوامی تنازعے میں بنیادی فریق ہیں اور جب تک انہیں ان کا حق خودارادیت نہیں دیا جاتا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔