بھارت

بھارت:نوراتری کے موقع پر کئی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات،درجنوں افراد زخمی

نئی دلی 12اپریل (کے ایم ایس)
بھارت میں ہندوئوں کے بھگوان رام کے جنم دن کی مناسبت سے منائے جانے والے تہوار نوراتری کے موقع پر بھارت بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔
اتواراورپیر کے دوران بھارت بھرمیں خصوصا چار ریاستوں گجرات، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے،جن میں ہندتوابلوائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر کئے گئے حملوں کی وجہ سے ایک شخص ہلاک ، درجنوں افراد زخمی اوردرجنوں گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ہندو توابلوائیوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے بلند کئے اور مساجد پر حملوں کے علاوہ مسلمانوں کے گھروں کو نظر آتش کر دیا ۔نئی دلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں نوراتری کے موقع پر نان ویج یا گوشت والے کھانے دیے جانے پر اسٹوڈنٹس یونین جے این ایس یو اور بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے درمیان تنازعے نے شدت کے بعدتشدد کی شکل اختیار کرلی۔جس سے کم از کم 16طلبہ زخمی ہوگئے۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک کیس درج کرلیا ہے۔ زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔نوراتری کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے شہروں کھمبات اور ہمت نگر شہروں میں تصادم کے مختلف واقعات پیش آئے۔ ہمت نگر میں ہندو بلوائیوں کے جلوس میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے بلند کئے جانے اورتیز آواز میں گانے بجانے کے بعدتصاوم ہوا ۔ریاست مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دیگر قصبوں میں بھی فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات پیش آئے۔ دلی فسادات کے ملزم، بی جے پی لیڈر، کپل مشرا بھی کھرگون میں نوراتری کے جلوس میں شامل تھے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ نے ایک ٹوئیٹ میں لکھاہے کہ جہاں جہاں مشرا کے قدم پڑتے ہیں وہاں فسادات ہو جاتے ہیں۔جھارکھنڈ کے لوہردگا ضلع میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران تصادم میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوگئے جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔مغربی بنگال میں ہوڑہ کے علاقے شب پور میں ہندوتوا کارکنوں کے جلوس کے دوران تصادم کے واقعات پیش آئے۔ معروف سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر اپوروانند کا کہنا تھا کہ ہندو تہواروں کے موقع پر ہونے والے تشدد میں تمام ہندو شامل نہیں ہیں لیکن یہ ہندوں اور ہندو دھرم کے نام پرکیے جا رہے ہیں۔انہوں نے ہندوں سے سوال کیا کہ کیا اس سے انہیں سکون مل رہا ہے کہ ان کے تہوار کے نام پر دوسروں کو تکلیف پہنچائی جائے۔ اور اگر نہیں تو کیا وہ ایسا کرنے والوں کو روک نہیں سکتے؟ اپوروانندکا کہنا تھا کہ تہواروں کے مبارک موقع پر تشدد کے واقعات پر خاموشی اختیار کیے رہنا بھی گناہ ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button