برطانوی رکن پارلیمنٹ نے حکومت کی توجہ ملک میں آر ایس ایس کی سرپرستی میںہونے والے پرتشدد واقعات کی طرف دلائی
لندن 25 ستمبر (کے ایم ایس)برطانوی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے برطانیہ میں بڑھتی ہوئی ہندوتوا لہر کا معاملہ اپنی حکومت کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بولٹن میں کم از کم 300 نقاب پوش ہندو نوجوانوں کے ایک گروپ کی طرف سے مسلم اکثریتی علاقے میں مارچ کے بعد تشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔
یاسمین قریشی جو بولٹن ساوتھ ایسٹ سے رکن پارلیمنٹ ہیں، نے سیکرٹری داخلہ Suella Braverman کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ مسلمان اور ہندو کمیونٹیز لیسٹر میں کئی دہائیوں سے دوستوں اور ساتھیوں کی طرح رہ رہی تھیں۔ بولٹن میںحالیہ ہفتوں اور مہینوں میںپ±رتشدد حملوں، مذہبی علامتوں کو نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے رپورٹس سامنے آئی ہیں۔انہوں نے لکھا کہ گذشتہ ہفتے کے آخر میںکشیدگی بڑھ گئی اور سڑکوں پرتشدد بدامنی پھوٹ پڑی اور یہ اطلاع ملی کہ کم از کم 300 کے قریب نقاب پوش ہندو مردوں کے ایک گروپ نے مسلم اکثریتی علاقے میں دو میل سے زائد راستے تک مارچ کیا۔ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب لاٹھیوں سے مسلح ہندوﺅںنے حملے کیے جس دوران کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ شواہد کے مطابق کشیدگی اور تشدد کو لیسٹر سے باہر کے گروہوں نے بھڑکا دیا ہے جو تشدد برپا کرنے کی نیت سے شہر آئے تھے۔ گرفتار شدگان میں سے نصف سے زائد شہر سے باہر کے رہائشی ہیں۔ یاسمین قریشی نے لکھا اس تناﺅ اور تشدد کی جڑیں آر ایس ایس ، ہندوتوا انتہا پسندی اور دائیں بازو کے نظریے سے متاثر اسلامو فوبیا میں ہیں جسے سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے مزید بڑھا دیا ہے جہاں اس نسل پرستی اور فسطائیت کا زیادہ تر حصہ شیئر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بھارت میں آر ایس ایس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ میرے حلقے بولٹن میں اس بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر اس تشدد کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کے لیے مزید کچھ نہیں کیا گیا تو یہ تناو¿ لیسٹر سے آگے ملک کے دیگر حصوں تک پھیل جائے گا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ یک قومی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کی اشد ضرورت ہے۔یاسمین قریشی نے سیکرٹری داخلہ کے نام خط میں مزید لکھا کہ 15 ستمبر کو میں نے آپ کو ہندو انتہا پسند خاتون رہنما Sadhvi Rithambharanکے دورہ برطانیہ کے حوالے سے اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا اور انکے ویزے کو منسوخ اور دورے کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ لیسٹر میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات کے بعد اب سادھوی کے دورے کو روکنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔