مقبوضہ کشمیرمیں اربوں روپے مالیت کی شہریوں کی املاک ضبط کر لی گئیں، وائس آف امریکہ کی رپورٹ
سرینگر28دسمبر(کے ایم ایس)
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میںقابض انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں جماعت اسلامی کے زیر ملکیت بیسیوںاملاک کو ضبط کر لیا ، جس سے طویل عرصے سے مسلم اکثریتی مقبوضہ علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے محیط الاسلام کی مرتب کردہ ایک رپورٹااملاک کی ضبطی کی تازہ ترین کارروائیوں میں کہاگیا ہے کہ ریاستی تحقیقاتی ادارے ایس آئی اے کی تجویز پر کم سے کم 20املاک ضبط کی گئی ہیں۔ مزید درجنوں املاک کو بھی ضبط کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔20دسمبر کو بھارتی فورسز کو کشمیری حریت رہنماء سید علی گیلانی کے دو منزلہ گھر کو ضبط کرنے کیلئے ہائی الرٹ پر رکھا گیا ۔یہ چھاپہ بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے پولیس کے ساتھ مل کر مارا ۔سیدعلی گیلانی کے خاندان کے ایک رکن نے سرکاری انتقامی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر VOA سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "شاید، یہ جائیداد جماعت اسلامی کی تھی، جسے قابض انتظامیہ نے ایک کالعدم تنظیم قراردے دیاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم وہاں تھوڑی دیگر تک رہائش پذیر رہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے جماعت اسلامی پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ پابندی کے بعد اسکے ہیڈ آفس کو سیل کر دیا گیا۔2019میں مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد این آئی اے نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے کیلئے بڑی تعداد میں چھاپے مارے اور بہت سے املاک کو ضبط کر لیاگیا۔ 18دسمبر کوایس آئی اے نے وادی کے کئی اضلاع میں ایک ارب روپے مالیت کی جماعت اسلامی کی جائیدادیں ضبط کی تھیں۔ایجنسی نے جماعت اسلامی کی زیر ملکیت مزید188جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں ضبط کیاجائے گا ۔وائس آف امریکہ نے جماعت اسلامی کے متعدد ارکان سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے خوف سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ رپورٹ میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کشمیر وجے کمارکے بارے میں کہاگیا ہے کہ پولیس جہاں بھی انکانٹر ہو گا یا جن گھروں کو پناگاہ کے طورپر استعمال کیاجارہا ہو گا تمام املاک ضبط کر لے گی۔ انہوں نے یہ بات WIONٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی ۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئررہنما شبیر احمد شاہ کے گھر کو بھی رواں سال 4نومبر کو ضبط کر لیاگیا تھا۔ دو منزلہ مکان کو شبیر احمد شاہ اپنے دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔