بھارت

بھارت جنگ بندی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق نہرو کے خطوط کومنظر عام پر لانے سے کترا رہا ہے ،برطانوی روزنامے گارڈین کا انکشاف

لندن 14فروری (کے ایم ایس)
بھارت جنگ بندی اور مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق 1947 کے دستاویزات کومنظر عام پر لانے سے کترا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ان "حساس” خطوط سے اسکے خارجہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق برطانوی روزنامہ گارڈین نے ایک رپورٹ میں سرکاری دستاویزات جنہیں بوچر پیپرز کے نام سے جانا جاتا ہے، کہاہے کہ ان دستاویزات میں سیاسی اور فوجی دلائل دئے گئے ہیں کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کیوں کیا اور ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کیوں دی۔ کئی دہائیوں سے کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع جموںو کشمیر کو خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ ایک الگ آئین، ایک جھنڈا اور خود مختاری دی گئی تھی۔ ان اقدامات کو کشمیریوں نے مسلم اکثریتی ریاست میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم سمجھا۔تاہم اگست2019میں، ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے متنازعہ علاقے کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کے تحت اسکی آئینی خودمختاری کو باضابطہ طور پر منسوخ کر دیاتھا۔ اخبار مزید کہتا ہے "اس فیصلے نے خطے پرمودی حکومت کی گرفت مضبوط کر دی اور کشمیریوں کے غم و غصے اور ناراضگی میں مزید اضافہ ہوا ۔سرکاری دستاویزات جنرل سر فرانسس رابرٹ رائے بوچراور نہرو سمیت سرکاری عہدیداروں کے درمیان رابطوںکا حوالہ دیاگیا ہے۔جنرل سر فرانسس رابرٹ رائے بوچرنے1948اور 1949کے درمیان بھارتی فوج کے دوسرے کمانڈر انچیف کے طور پر خدمات انجام دی تھیں ۔ برسوں بعد کارکنوں کی طرف سے دفعہ 370کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کے لیے کاغذات کو منظر عام پر لانے کی کئی کوششیں کی گئیں،اس دفعہ کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔گارڈین کی طرف سے دیکھی گئی وزارت خارجہ کی ایک حالیہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کاغذات کے مندرجات کو ابھی ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے۔ دستاویزات کے مطابق ان میں "کشمیر میں فوجی آپریشنل امور اور کشمیر پر حساس سیاسی معاملات پر سینئر حکومتی رہنمائوں کے درمیان خط و کتابت” شامل ہیں۔یہ کاغذات نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھے گئے ہیں، جو ہندوستان کی وزارت ثقافت کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button