مقبوضہ جموں و کشمیر

مقبوضہ جموں وکشمیر میں کوئی بولنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ بولنے کی قیمت جانتے ہیں:دی وائر کی رپورٹ

سرینگر20فروری(کے ایم ایس) بھارت میں رائے عامہ پرنظر رکھنے والی ویب سائٹ” دی وائر” کی ایک رپورٹ میں جس کا عنوان ہے ”5اگست 2019کے بعد کشمیر کی ان کہی کہانی”، مقبوضہ جموں و کشمیر کی ایک اداس تصویر پیش کی گئی ہے جبکہ مودی حکومت اس کے برعکس علاقے میں حالات معمول کے مطابق ہونے کا دعویٰ کررہی ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق دی وائر کی رپورٹر ارفع خانم شیروانی نے سرینگر کے علاقے زینہ کدل میں کچھ کشمیریوں سے بات کی تاکہ یہ جان سکیں کہ علاقے کی زمینی صورتحال کیسی ہے اور انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر کوئی بولنے سے ہچکچاتا ہے اور اگر کوئی بولنے کی ہمت بھی کرتا ہے تووہ اپنی آنکھوں میں آنسوں لئے صرف اتنا کہہ پاتاہے کہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ سب کچھ واضح ہے۔کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد رپورٹر اس نتیجے پر پہنچی کہ بھارتی حکومت اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی خواہشمند ہے کہ زمینی صورتحال معمول کے مطابق اور پہلے سے بہتر ہے۔تاہم کشمیری عوام نے ایک بہت ہی مختلف تصویر پیش کی ہے جس میں خاموشی اور خوف واضح نظرآتا ہے اوریہ دکھائی دیتا ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری نے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔انٹرویو دینے والوں میں سے ایک نے رپورٹر کو بتایا کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے کیونکہ زندگی اس کے لیے معنی کھو چکی ہے،بس دن گزر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی بات کرتا ہے اسے شام کو اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک اور نوجوان کشمیری نے کہا کہ ہمیں معاشی طور پر معذور کر دیا گیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایک انٹرویو دینے والے نے کہا کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ پھیرن پہنے ایک شخص نے رپورٹر کو بتایا کہ شام کے بعدسرینگر میںکرفیو جیسی صورتحال ہوتی ہے۔دفعہ 370اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے ہوئے اور سابقہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔آخر میں رپورٹر نے اپنی رپورٹ کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیاکہ لوگ عام طور پر خوف کی وجہ سے بولنے سے ہچکچاتے ہیں اور اگر کوئی بات کرتا بھی ہے تو وہ معاشی صورتحال پر بات کرتا ہے اور سیاسی معاملات پر بحث سے گریز کرتا ہے۔ اگست 2019سے پہلے اوراس کے بعد کی صورتحال میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔میں کئی بارکشمیر جا چکی ہوں لیکن اس بار میں نے دیکھا کہ یہ بالکل بدلا ہوا کشمیر ہے۔جب میں نے کسی سے زمینی صورتحال کے بارے میں بات کی تو اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو بھرکر کہاکہ آپ پر سب کچھ واضح ہے۔ اگر میں اس صورت حال کے بارے میں کچھ کہوں تو یہ صورت حال باقی نہیں رہے گی۔رپورٹر اس نتیجے پر پہنچی کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد سے گزشتہ تین سالوں میں سب نے سیکھا ہے کہ یہاں بولنے کی قیمت کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہاں کوئی بولنے کو تیار نہیں جبکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button