مقبوضہ جموں و کشمیر میں معمول کے فوجی حالات
محمد شہباز
مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نام نہاد معمول کے حالات کی واپسی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں معمول کے حالات کی واپسی کے بھارتی دعوے روزانہ کی بنیاد پر کریک ڈاون،ماورائے عدالت قتل، تشدد،محاصروں،تلاشیوں اورگرفتاریوں سے بے نقاب ہو رہے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلسل نظربندیاں، صحافیوں کوسخت اورظالمانہ قوانین کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنے سے بھارت کے معمول کے پرامن حالات کے دعووں کا منہ چڑھاتی ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیرکو دنیا کی ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا ہے۔یہاں بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والا علاقہ بنا دیا ہے۔ مودی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں سب کچھ معمول کے خلاف ہے۔ مودی حکومت مسئلہ کشمیر پر اپنے جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے سچائی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ناکام اور مذموم کوشش کر رہی ہے۔ مودی دنیا کو یہ یقین دلانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جیسے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں سب کچھ ٹھیک ہے۔بھارت کو حقیقی زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو مقبوضہ جموں و کشمیرکا دورہ کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔تاکہ پوری دنیا پر واضح ہوسکے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت اور اس کی دہشت گرد افواج کیا گل کھلارہی ہے۔مودی اور اس کے حواری اگر اپنے دعووں میں سچے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بقول ان کے حالات پرامن ہیں تو بلاتاخیر مقبوضہ جموں و کشمیر کو غیر جانبدار صحافیوں،تجزیہ نگاروں،انسانی حقوق کے کارکنوں اور اقوام متحدہ کے مبصرین کی آمد کیلئے کھول دیں، وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں کہ کشمیری عوام کن کٹھن حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ دعووں اور حقیقت میں وہی فرق نمایاں ہوتا ہے جو دن اور رات میں ہے۔کون نہیں جانتا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی گلی کوچوں اور قدم قدم پر بھارتی فوجی تعینات ہیں۔1990 میں جہاں عارضی بینکر اور فوجی چوکیاں قائم کی گئی تھیں وہ اب پختہ کنکریٹ میں تبدیل ہوچکی ہیں۔دس لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں یہ دعوی کرنا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات پرامن ہیں،بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
5اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اہل کشمیر کی سانسوں پر پہرے بٹھائے گئے ہیں۔پوری آزادی پسند قیادت کو بھارت کی دور دراز جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کرکے بظاہر ان کی آواز کو ختم کیا گیا ہے۔یہ مودی اور اس کے حواریوں کے مظالم کا ہی شاخسانہ ہے کہ پہلے تحریک آزادی کشمیر کے قدآور رہنما 77سالہ جناب محمد اشرف صحرائی کی میت کوٹ بھلوال جیل سے نکلی ہے۔جن کا لخت جگر جنید اشرف صحرائی19مئی 2020 میں سرینگر میں بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک خونریز معرکے میں جام شہادت نوش کرگئے تھے۔11 اکتوبر 2022 میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک اور سینئر رہنما الطاف احمد شاہ بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں اللہ کو یارے ہوگئے۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما سید علی گیلانی کے داماد بھی تھے۔خود سید علی گیلانی ایک دہائی تک حیدر پورہ سرینگر میں واقع اپنے گھر میں خانہ نظربند ی کے دوران یکم ستمبر 2021 میں جام شہادت نوش کرگئے۔ان کی میت بھارتی سفاکوں نے قبضے میں لیکر خود ہی تدفین بھی کی ہے۔اس کے علاوہ 5 اگست 2019 کے بعد ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں میں قید کیا گیا ہے،جہان انہیں تمام بنیادی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ایسے میں یہ دعوی کرنا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں ،ایک ذہنی مفلوج اور مجذوب ہی ان بھارتی دعووں پر یقین کرسکتا ہے۔
اس سلسلے میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں G20 اجلاس منعقد کرنے کا مقصد دنیا کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی حقیقی زمینی صورتحال کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔مودی حکومت سرینگر میں G20 اجلاس کے انعقاد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں حالات کے معمول پر آنے کا غلط تاثر اور 5 اگست 2019 میں اپنے غیر قانونی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہے۔ سرینگر میں G20 اجلاس کرانے کا ایک مذموم مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر اوربھارت میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے جی 20 فورم کا استحصال کر رہا ہے۔ جی 20 رکن ممالک کویہ نہیں بھولناچاہیے کہ جموں کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور یہاںبھارتی حکومت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ مودی حکومت سرینگر میں G20 اجلاس کے ذریعے کشمیری عوام کے خلاف اپنے تمام جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے بین الاقوامی رضامندی حاصل کر نا چاہتی ہے۔جی 20 ممالک کو اقوام متحدہ کے نامزدکردہ متنازعہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر تنازعہ کھڑا کرنے کی بھارتی سازشوں کی ڈٹ کرمخالفت کرنی چاہیے۔تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں G20 سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا بھارتی منصوبہ اقوام متحدہ کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔G20 ممالک اگرمقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی کی میٹنگ کی دعوت قبول کرتے ہیںتوو ہ مظلوم کے مقابلے میں ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔اہل کشمیر نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں G20 اجلاس کے انعقاد کو یکسرمسترد کیا ہے۔کشمیری عوام کبھی بھی جی 20 ا جلاس کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
گوکہ پوری دنیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور بربریت پر اپنی آنکھیں بند اور مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے،مگر کچھ باضمیر بھی ہیں جو وقتا فوقتا بھارتی مظالم کا بیج چوراہے میں بھانڈا پھوٹتے ہیں۔انہی میں یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سابق سرابرہ مسٹر جان کشناہن بھی ہین جن کی قیادت میں یورپی یونین کے ایک وفد نے 2004میں مقبوضہ جموں وکشمیرکا دورہ کرکے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو طشت از بام اور باھرت کا سفاک چہرہ بے نقاب کیا ہے۔یورپی یونین کی کمیٹی برائے خارجہ امور نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کی مذمت کی اور پھر 24 اگست 2004 میں اپنے دورے پر مشتمل رپورٹ کو شائع کیا۔
وفد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور بے گناہ کشمیریوں کی یومیہ حراست میں اوسطا 17 اموات ہوتی ہیں۔
وفد کے ایک رکن مسٹر گہرٹن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کے حوالے سے بھارتی حکام کی طرف سے ظاہری مخاصمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور انہوں نے کہا کہ ایسا منفی رویہ قابل فہم نہیں ہے کیونکہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حصہ تھا۔ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ آنجہانی بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے کیایا گیا پختہ وعدہ کہ کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دیا جائے گا،اگر چہ ان کا فیصلہ بھارت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
وفد کے ایک اور رکن مسٹر ڈیوڈ بوو، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا، مقبوضہ وادی کشمیرمیں بھارتی فوجیوں کے ارتکاز پر حیران رہ گئے، جو انہوں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے خوبصورت جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
وفد نے یورپی یونین کی پارلیمانی کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ مسئلہ کشمیر کے تین فریق پاکستان ،بھارت اور کشمیری عوام اور اس مسئلے کے حل کے لیے تمام فریقین کو مذکرات میں شامل کیا جانا ہونا چاہیے۔ بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں۔ بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بند ہونی چاہئیں کیونکہ 2004 کے اوائل سے24اگست تک کم از کم 1000 اموات ہو چکی ہیں۔یورپی وفد نے یہ بھی کہا تھا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد مقامی سطح پر کی جاتی ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سخت اور ظالمانہ پوٹا قانون کو ختم کیا جائے۔ جبکہ اقوام متحدہ کو بھارت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے کیونکہ یہ طویل مدت میں بامعنی ہو سکتا ہے۔وفد نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آپشنز کا جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے دونوں اطراف کے ماہرین، بھارت، پاکستان اور یورپی یونین پر مشتمل ایک کانفرنس منعقد کی جائے۔تاکہ کسی حل کے نتیجے پر پہنچا جاسکے۔وفد نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی دیرپا عزم ظاہر نہیں کیا جس کا جلد از جلد حل جنوبی ایشیا میں امن کے لیے ناگزیر ہے۔
کشمیری عوام مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ،ناجائز،غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضے کے خاتمے کیلئے تاریخ کی عظیم اور لازوال جدوجہد کررہے ہیں،جس میں اب تک سوا پانچ لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانون کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔یہ قربانیاں کسی صورت رائیگان نہیں جائیں گی۔ان قربانیوں کے ساتھ وفا کرنا اہل کشمیر پر فرض اور قرض ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی طلم و بربریت فنا کے گھاٹ اتر جائے گا اور بھارت کو اہل کشمیر کی عزیمت اور لازوال قربانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی کے سورج نے طلوع ہونا ہے البتہ اس میں دیر سویر ہوگی۔کشمیری عوام نے اپنی قربانیوں کے ذریعے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔