تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی کا تیسرا یوم شہادت آج پورے مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر میں اس عزم کی تجدید کیساتھ منایا جارہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جاری جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کرنے والوں کی قربانیوں کو ہر حال میں پائیہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ محمد اشرف صحرائی کو ان کے لخت جگر جنید صحرائی کی شہادت کے بعد گرفتار کرکے ادھمپور جیل جموں میں مقید کرکے انہیں صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا،جس کے نتیجے میں وہ 5مئی 2021 میں جیل کے اندر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے،ان کی میت راتوں رات ان کے آبائی علاقہ لولاب پہنچائی گئی اور صرف خاندان کے 20 افراد کو ان کی نماز جنازہ میں شامل ہونے دیا گیا ۔ظلم و جبر کی حد تو یہ ہے کہ ان کی شہادت کے چند دن بعد ہی ان کے دو بیٹوں مجاہد اشرف صحرائی اور راشد اشرف صحرائی کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،اور وہ آج بھی بھارتی عقوبت خانے میں مقید ہیں۔
محمد اشرف صحرائی کو ان کے تیسرے یوم شہادت پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آج مکمل ہڑتال کی اپیل ہے،جبکہ سرینگر اور مقبوضہ کشمیر کے دیگر کئی علاقوں میں پوسٹرز بھی چسپان کیے جاچکے ہیں ‘ جن میں تحریک آزادی کشمیر کے تمام شہدا کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیلئے پورے مقبوضہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں مکمل ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔ محمد اشرف صحرائی کی عمر 77برس تھی جب ان پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیاگیا تھا جس کے تحت وہ جموں کی ادھمپور جیل میں نظربند تھے،جہاں انکی حالت تشویشناک حد تک بگڑنے کے باوجود علاج معالجے کی سہولت تک فراہم نہ کی گئی، پھرانہیں اسوقت ہسپتال منتقل کیاگیا جب ان کے زندہ بچنے کے امکانات بالکل معدوم ہو چکے تھے،جبکہ ان کے اہلخانہ کو ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں بھی مکمل لاعلم رکھاگیاتھا، وہ جماعت اسلا می مقبوضہ کشمیر کے رکن بھی تھے،اوراگر یہ کہا جائے کہ وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے نظریہ ساز تھے،تو غلط نہیں ہوگا۔وہ تقریبا نصف صدی سے زائد عرصے تک جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہو ں نے مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف انتھک جدوجہد کی، محمد اشرف صحرائی سخت جان آزادی پسند قائد تھے اور انہوں نے جدوجہد آزاد ی کی راہ میں اپنے لخت جگر جنید صحرائی کی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔جنید نے 19مئی2020میں سرینگر میں بھارتی سفاکوں کیساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔ جنید صحرائی نے MBA کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی ،بھارتی جبر کے نتیجے میں جنید نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور پھر اپنی جان بھی تحریک آزادی کی راہ میں قربان کی۔شہادت کے وقت تک جناب صحرائی تحریک حریت جموں و کشمیر کے سربراہ تھے۔ صحرائی صاحب دہائیوں تک بھارتی جیلوں میں مقید رہے۔محمداشرف صحرائی جماعت اسلامی کے ان چند رہنماوں میں شامل ہیں جنھوں نے انتخابی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
5 اگست 2019 میں جب مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا تو پوری آزادی پسند قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو قید کیا گیا۔جس کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر کی ایک درجن سے زائد جیلوں میں مقید تقریبا پانچ ہزار کشمیری نظربندوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی۔مقبوضہ جموں کشمیر کی 13 جیلوں میں ہزاروں افراد قید میں ہیں جن میں اکثر آزادی پسندی کے الزام میں بھی قید ہیں۔بدنام زمانہ نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید درجنوں حریت رہنماوں کے اہلخانہ بار بار اپیل کرچکے ہیں کہ انھیں وادی کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔یقینا کشمیری عوام محمد اشرف صحرائی کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے قابل قدر جدوجہد اور عظیم قربانیوں پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ جس نے آخری سانس بھی بھارتی حراست میں جان کی بازی لگا کر تحریک آزادی کشمیر سے وفا کی روشن مثال قائم کی ہے،ان کی تمام عمر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسرپیکار رہتے ہوئے گزری، کوئی جبر انہیں ان کی راہ سے ہٹا نہیں سکا، اپنے صاحبزادے جنید صحرائی کی شہادت کا غم بھی انہوں نے ناقابل بیان ہمت سے سہا، وہ آخری دم تک کشمیری عوام کی آزادی اور غا صب بھارتی افواج کے خلاف سینہ تان کر کھڑے رہے۔ ان کی جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔ کشمیری عوام نے گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے تحریک آزادی میں وہ قربانیاں دی ہیں جن کی مثال حالیہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ کشمیری عوام کی تیسری نسل اس وقت بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار ہے اورمودی حکومت کے تمام فسطائی ہتھکنڈے آزادی کی چنگاری کو دبانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ محمد اشرف صحرائی اور ان کے خاندان کی تحریک آزادی کیلئے عظیم اور لازوال قربانیاں ہیں، جن پر اہل کشمیر کو فخر ہے، بھارت کی قید وبند کی صعوبتیں ان کے آہنی عزم کو متزلز ل نہیں کر سکیں۔
محمد اشرف صحرائی عزم صمیم کا پیکر تھے، تحریک آزادی کشمیرکیلئے انہوں نے بیٹے کی شہادت پر کہا،ان کے دوسرے بیٹے بھی شہادت کیلئے تیار ہیں۔جب جنید نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرکے عسکری جد وجہد کا راستہ چنا تھا تو قابض بھارتی انتظامیہ نے جناب محمد اشرف صحرائی سے بیٹے کو واپس آنے کی اپیل کرنے کیلئے کہا تھا جس پر اس مرد قلندر اوراہل بصرت نے یہ تاریخی الفاظ کہہ کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے کہ جب ہم دوسرے بیٹوں کو واپس آنے کی اپیل نہیں کرتے ہیں تو میں اپنے بیٹے جنید کو واپس آنے کی اپیل کیوں کروں گا؟کیا جنید کا خون دوسرے کشمیری بیٹوں سے قیمتی ہے؟لہذا میں جنید کو واپس آنے کی اپیل نہیں کروں گا،انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے،وہ سوچ سمجھ کر ہی اختیار کیا ہے۔ان الفاظ نے جناب محمد اشرف صحرائی کو پوری دنیا کے آزادی پسندوں کی نظروں میں ایسا باعزت مقام اور مرتبہ عطا کیا ہے کہ جس کے بارے میں دوسرے لوگ خواہش ہی کرسکتے ہیں،لیکن ایسا مقام و مرتبہ مرد کوہستانی جناب اشرف صحرائی کا ہی نصیب ہوسکتا ہے۔حزب المجاہدین کے سربراہ اور متحدہ جہاد کو نسل کے چیر مین سید صلاح الدین احمدنے محمداشرف صحرائی کو ان کے تیسرے یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہا کہ و ہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کا بہترین نمونہ تھے، عزم و استقلال کی ایسی چٹان تھے، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت مقصدِ عظیم سے ہٹا نہیں سکی ۔وہ تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت، صف اول کے قائداور امام سید علی گیلانی کے دست راست تھے۔ پہلی دفعہ 1965 میں پابندِ سلاسل ہوئے۔ مجموعی طور پر سولہ برس سے زائد عرصہ بھارتی عقوبت خانوں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ثابت قدمی اور پامردی سے بھارتی سامراج کا مقابلہ کیا اور اپنے نصب العین پرمسلسل ڈٹے رہے۔ان کا پورا خاندان بھارتی عتاب کا شکار رہا لیکن یہ سب کچھ وہ عزیمت کا پہاڑ بن کر برداشت کرتے رہے اوراسی حالت میں 5 مئی 2021میں جموں جیل میں زیر حراست شہادت کا جام پی کر ا للہ کے حضور پیش ہوئے۔ایں سعادت بزور بازو نیست۔ انہوں نے کہا کہ شہید محمد اشرف صحرائی ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کا بہترین نمونہ عمل تھے۔ کوئی لالچ انہیں خرید نہ سکی۔ انہوں نے بڑے مصائب و آلام برداشت کئے حتی کہ اپنے چھوٹے لخت جگر جنید صحرائی کی شہادت بھی انہیں اپنے عظیم مقصد کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکی۔ ان کی شہادت سے بظاہر ایک بہت بڑا خلا ضرورپیدا ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عظیم قائد نے لاکھوں صحرائی تیار کئے ہیں،جو باطل کو شکست دینے کیلئے پر عزم ہیں اورحصول منزل تک جدوجہد آزادی میں مصروف رہنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ ان شا اللہ شہید محمد اشرف صحرائی رحم اللہ کی مقدس جدوجہد اور ان کی قربانیوں کو کسی بھی صورت رائیگان نہیں ہونے دیا جائیگا۔
بلاشبہ شہید محمد اشرف خان صحرائی تحریک آزادی کشمیر کے ایک نڈر ،بے لوث اور انتہائی مخلص رہنما تھے۔ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی کہ وقت کے سب سے بڑے امام ابوحنیفہ کی طرح ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھا۔وہ صرف گفتار کے نہیں بلکہ کردارکے بھی غازی تھے۔شہید محمداشرف صحرائی اپنے پیچھے عزم و ہمت اور قربانیوں کی لازوال داستان چھوڑ گئے اور آخری دم تک تحریک آزادی کشمیر کیساتھ اپنا عہد نبھاتے رہے۔کشمیری قوم اپنے اس عظیم رہنما کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان کی جدوجہد اور قربانی اہل کشمیر کیلئے مشعل راہ ہے ۔