فیس بک نے بھارتی دباﺅ کے تحت پروپیگنڈا اور نفرت انگیز تقریر کو فروغ دینے کی اجازت دی
بھارتی فوج کو پاکستان اور کشمیری صحافیوں کو بدنام کرنے کی مہم چلانے دی
سان فرانسسکو29 ستمبر (کے ایم ایس)واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم” فیس بک“ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کے دباو¿ میں بھارت اور بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پروپیگنڈے اور نفرت انگیز تقاریر کو پروان چڑھنے دیتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مضمون میں کہا گیا ہے تقریباً تین برس قبل سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والی ایک وسیع کارروائی کا پردہ فاش ہوا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے کریک ڈاون کی تعریف کرنے اور کشمیری صحافیوں پر علیحدگی پسندی اور بغاوت کا الزام لگانے کے لیے سینکڑوں جعلی اکاونٹس کا استعمال کیا گیا۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس نیٹ ورک کو سری نگر میں مقیم بھارتی فوج کی چنار کور چلاتی تھی۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب فیس بک کے امریکہ میں مقیم سپروائزر نے بھارت میں اپنے ساتھیوں کو نیٹ ورک کے صفحات حذف کرنے کی ہدات کی تو نئی دہلی کے دفتر کے ایگزیکٹوز نے حکومتی ردعمل اور قانونی نتائج کے خوف سے ایسا کرنے سے انکار کیا چناچہ بھارتی فوجی یونٹ نے غلط معلومات پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا جس سے کشمیری صحافی خطرے میں پڑ گئے۔ یہ تعطل صرف اس وقت حل ہوا جب فیس بک کے اعلیٰ عہدیداروں نے مداخلت کی اور جعلی اکاو¿نٹس کو حذف کرنے کا حکم دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مضمون میں کہا گیا کہ کہ ٹویٹر(ایکس) نے بھی بھارتی حکومت کے دباو¿ میں آکراپنے قوائد و ضوابط ترک کیے اور ملازمین کی حفاظت سے متعلق خدشات کی وجہ سے اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا۔ فیس بک نے بالآخر چنار کور کے جعلی اکاو¿نٹس بند کردیے لیکن بھارتی فوج کو ہزیمت سے بچانے کے لیے ہٹانے کا انکشاف نہیں کیا۔ ٹویٹر نے بھی خاموشی سے چنار کور کے نیٹ ورک کو ہٹا دیا ۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کا معاملہ اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح فیس بک وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دباو¿ میں اپنے اصول و ضوابط پر سمجھوتہ کر لیتا ہے۔
مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک دوسرے ممالک میں غیر مستند نیٹ ورکس کے خاتمے کی اطلاع تو دیتا رہا لیکن اپنی سہ ماہی رپورٹ میں بھارت کا ذکر نہیں کیا۔ مضمون میں مزید کہا گیا کہ امریکہ نے گوکہ بھارت میں جمہوری اصولوں کے خاتمے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے عوامی سطح پر مودی حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کیا ۔