مضامین

(حرفِ مقدم)

منیر احمد زاہد
ریڈیو پاکستان اسلام آباد

download (2)27اکتوبر 1947 کو بھارت کے مقبوضہ جموں وکشمیر پر فوجی قبضے کا پس منظر جاننے کے لیے ہمیں 03جون 1947 کے تقسیم ہند کے فارمولے کو دیکھنا ہوگا ۔
اس فارمولے کے تحت غیر منقسم ہندوستان کی وہ ریاستیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی انہیں پاکستان کے ساتھ شامل کیا جانا تھا جموں وکشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ اگرچہ غیر مسلم ڈوگرہ تھا۔
تاریخی شواھد کے مطابق ان کے پرکھوں کو یہ ریاست 75لاکھ نانک شاہی کے عوض انگریزوں کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی اور یہ تحفہ تخت لاہور کے حصول میں ڈوگرہ کی انگریز نوازی کا ایک صلہ بھی تھا ۔
1947سے پہلے بھی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی
مردم شماریوں کے اعداد و شمار کے مطابق 1947میں مسلم آبادی 86فی صد تھی
ریاست کے تمام قدرتی و تجارتی روابط پاکستان کے شہروں سیالکوٹ ، لاہور جو جموں کے قریب تر تھے اور راولپنڈی جو سری نگر سے قریب تر تھا سے منسلک تھے ۔
جبکہ ان کے مقابلے میں دہلی یا امرتسر کی منڈیاں بہت دور تھیں جس میں سری نگر جموں شاہراہ کی خستہ حالت بھی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔
ریاست کے لوگوں کی اکثریت کے مذہبی، سیاسی، لسانی ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی رشتے پاکستان سے جڑے تھے ۔
اس کے علاوہ جموں وکشمیر کے پہلے مسلم حکمران زین العابدین بڈشاہ سے شروع ہونے والے مسلم حکمرانوں کے دور سے ریاست کے اکثریتی عوام مذہب اسلام کے پیرو کار ہونے کے ناتے لوگ قدرتی طور پر پاکستان کی جانب جھکاؤ رکھتےتھے ۔
مہاراجہ کا راولپنڈی شہر سے اپنا بھی ایک تعلق تھا۔
پونچھ ہاؤس راولپنڈی میں خود مہاراجہ اور اس کے سرکاری اہلکار آتے جاتے اور ٹھہرتے بھی تھے۔
اس کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ نہ تو جموں وکشمیر کا کوئی براہ راست زمینی راستہ ملتا تھا نہ ہی لسانی ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے ان کے درمیان کوئی قدر مشترک تھی کہ جو ان علاقوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے کام آتی ۔
اس لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر کا فطری طور پر رشتہ پاکستان کے سیالکوٹ پوٹھوہار اور ہزارہ سے بنتا تھا
وادی کشمیر میں کشمیری زبان بولی جاتی تھی جو آزاد کشمیر کے وادی نیلم حویلی لیپا اور گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں بولی جاتی تھی اسی طرح لداخ کے لوگ شمالی علاقوں کے ساتھ لسانی ثقافتی اور تہذیبی پہلوؤں سے قریب تر تھے جبکہ جموں وکشمیر کے گوجری اور پہاڑی زبان بولنے والے جس میں ہندکو بھی شامل ہے کے لسانی روابط بھی آزاد کشمیر ہزارہ سیالکوٹ پوٹھوہار تک موجود تھے اس لحاظ سے یہ ریاست مذہبی لسانی ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا جز لاینفک تھی اسی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناح اسے شہہ رگ پاکستان کہتے تھے جس کانام بھی چودھری رحمت علی نے کشمیر کے (ک ) کے ساتھ رکھا ۔
1947میں پرجیا سبھا (ریاستی اسمبلی) میں 21میں سے 19سیٹوں کے ساتھ ریاست کی سب بڑی جماعت مسلم کانفرنس تھی
مسلم کانفرنس نے آبی گذر سری نگر سردار محمد ابرہیم خان کی میزبانی میں ایک کانفرنس میں قراد الحاق پاکستان منظور کی تھی اس کی وجہ یہ تھی سری نگر کے تمام ہوٹلوں کو مہاراجہ نے ایسی کسی بھی کانفرنس کے انعقاد سے سختی سے منع کردیا تھا ۔
ان منتخب نمائندوں کی رائے دراصل جموں وکشمیر کے تمام عوام کی رائے تھی۔
اصولی طور پر اقوام متحدہ کو اس قرارداد کی بنیاد پر ہی الحاق پاکستان کردینا چاہیے تھا کیونکہ یہ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل فورم تھا
اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ بھارت سے ریاست کا مستقبل وابستہ کرے ۔
مگر اس نے ان تمام تر ناقابل فراموش حقائق کے باوجود ریاست کو ایک جعلی الحاق کے ذریعے بھارت سے جبری طور جوڑ دیا۔ اس جعلی الحاق کا آج تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا اور برطانوی محقق ایلسٹر لیمب نے اسے عدیم الوجود قرار دیا ہے یعنی اس کی موجودگی سے ہی صاف انکار کیا ہے ،جو کہ ایک حقیقت ہے ۔
یوں 27اکتوبر 1947 جموں وکشمیر پر جبری قبضے کا دن بنا تو 05 اگست 2019 کو اسے مودی نے غیر قانونی قبضے کا رنگ دے دیا ۔
27اکتوبر کا پس منظر
دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم تھی جس کے اصولوں کو نہ مانتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اسے بھارت سے جبری بندھن میں باندھ دیا ۔
یہ سب ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جب باؤنڈری کمیشن نے بددیانتی کرتے ہوئے تین جون 1947تقسیم برصغیر کے اصولوں کو پامال کیا حیدر آباد جونا گڑھ بھارت کو دے دیے گئے
اسی طرح مسلم اکثریتی علاقوں میں پٹھان کوٹ بھی شامل تھا جو بھارت کے پاس جانے سے اسے جموں وکشمیر تک رسائی حاصل ہوئی۔
گویا انگریزوں نے ساز باز کے ذریعے بھارت کو جموں وکشمیر تک رسائی کا زمینی راستہ دیا جس کے لیے لیڈی ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے معاشقے کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔
انگریز ہمیشہ سے انسانی آزادیوں کے احترام کی بات کرتے آئے ہیں جس کا تقاضا تو یہ تھا کہ مسلم کانفرنس جو ریاستی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت تھی اس عوامینمائیدہ فورم نے 19جولائی 1947 کو
آبی گزر سری نگر میں قرار داد الحاق پاکستان سردار محمد ابرہیم خان کی سرکردگی میں منظور کرلی تھی
اس کا مقصد برطانوی حکومت اور پاکستان وبھارت پر واضح کرنا تھا کہ یہاں کی چھیاسی فی صد مسلم ابادی پاکستان سے ملنے کی خواہاں ہے
مہاراجہ کے ہندو وزیر اعظم رام چند اور معروف ریاستی صحافی اور قد آور شخصیت پنڈت پریم ناتھ بزاز بھی جموں و کشمیر کے پاکستان سے ملنے کے حامی تھے اور اس کی وجہ مسلمانوں کا اقلیتی ہندوؤں کے ساتھ صدیوں سے روا رکھا جانے والا حسن سلوک تھا
14اگست 1947کو پاکستان بنا تو جموں وکشمیر اس میں شامل نہیں تھا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ جو ریاست کا نسل در نسل حکمران تھا
نے مسلمانوں میں بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اندرون خانہ سازش کے تانے بانے بننا شروع کر دیے۔
جموں وکشمیر کی قیادت بھی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھی
مہاراجہ کے جبر کے باوجود عوامی رائے دلوں سے زبان تک آتی چلی گئی۔
جگہ جگہ اس کے مظاہرو مباحث کا برملا اظہارایک ایسے اظہار رائے کی صورت میں سامنے آیا جس ک احترام کیا جانا چاہیے تھا ۔
اس دوران مہاراجہ کی جانب سے کوششیں کی گئی کہ جس طرح بھارت سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان گئے اسی طرح جموں وکشمیر سے بھی لوگ پاکستان ہجرت کر جائیں اس سوچ کے نتیجے میں نومبر 1947میں ایک میلین سے زیادہ لوگ پاکستان ہجرت کر گئے جن میں ساڑھے تین سے چار لاکھ کو جموں میں قتل کردیا گیا اس قتل عام کا پس منظر یہ تھا کہ
14اگست کو پاکستان بنتے ہی جموں جو سری نگر کی نسبت بھارت سے قریب تھا میں قتل عام شروع ہوگیا ابتداء میں اس قسم کے واقعات شہروں سے دور پیش آئے جہاں میڈیا کی رسائی نہ تھی ۔
اگست اور ستمبر کے اکتوبر میں اس میں شدت آگئی۔
جموں میں بھارت سے آئے ہوئے آر ایس ایس کے کارکنوں اور انتہا پسند غنڈوں نے ظلم شروع کر دیے۔
مظالم میڈیا کی آنکھ سے دور تھے پھر بھی اس وقت کے بعض ہندی انگریزی اور بین الاقوامی اخبارات میں اس ظلم کو رپورٹ کیا گیا
عوام ستمبر1947 تک انتظار کرتے رہے کہ شاید ان کی بات کوئی سن کے مگر
اکتوبر میں جب انہیں زبردستی گھروں سے بے دخل کرنے اور دھکیلنے کا عمل شروع ہوا تو مزاحمت کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ۔
ایک طرف نہتے، بےکس اور بغیر اسلحہ لوگ تھے ،جن کے پاس صرف دیہات میں کام آنے والا سامان تھا دوسری طرف ڈوگرہ فوج نے ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے جس کے جواب میں لاٹھی برچھی تیغ و تبر تھی ۔مزاحمت کاروں کی پشت پر کوئی طاقت بھی نہ تھی جبکہ پاکستان خود نوزائیدہ تھا جس کی یہ شہہ رگ تھی ۔
ہندو بلوائیوں آر ایس ایس کے غنڈوں اور ڈوگرہ فوج کی اجانب سے مسلمانوں کی کاٹ پیٹ، مار دھاڑ اور قتل وغارت شروع ہو گئی۔
اس قتل عام کا ریکارڈ اس وقت کے پٹوار خانوں اور ڈائریوں کے سرکاری ریکارڈ پر بھی ہے مگر اسے پوشیدہ قرار دے کر چھپا دیا گیا یا ضائع کردیا گیا ہے ۔
آزاد کشمیر میں ڈوگرہ فوج زیادہ مضبوط نہ تھی لھذا مزاحمت کاروں نے انہیں جگہ جگہ سے نکالنے میں جلد کامیابی حاصل کی اور یہ مزاحمت جلد باقاعدہ مسلح صورت اختیار کر گئی۔
جس میں صوبہ سرحد ہزارہ کے مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائی سمجھتے ہوئے ان کی مدد کی ۔
سردار عبد القیوم خان اور بعض دوسرے نوجوان لیڈر اس مزاحمت میں صف اوّل میں شامل تھے ان میں پونچھ سے انگریز فوج نکل کر مر حر بننے والے کرنل شیر خان کانام بھی نمایاں طور پر لیا جاتا ہے
ڈوگرہ فوج مزاحمت کے سامنے نہ ڈٹ سکی
مہاراجہ کو آزاد کشمیر سے ہونے والی پیش قدمی سے اپنی شکست صاف نظر آنے لگی ۔
اسی دوران 24اکتوبر 1947کو آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کی بنیاد پڑی ۔
جونجال ہل پلندری اس کا پہلا دارلخلافہ بنایا گیا ۔
ڈوگرہ سے آزاد کرانے گئے علاقوں کو آزاد کشمیر ریاست کی شکل دے دی گئی جس کا مقصد بقیہ حصے کی آزادی کے لیے کوشش کرنا تھا ۔
بھارت نے 27 اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ سے سازباز کرکے جعلی دستاویزات الحاق کے ڈرامے کے ذریعے سری نگر میں فوجیں اتار دیں ۔
اس قبضے کے لیے بہانہ مہاراجہ کی شورش کے دوران مدد بتائی گئی،بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو لعل بہادر شاستری اور دیگر کے بیانات عارضی انتظام وانصرام کی طرف اشارہ کرتے تھے
مگر عملی طور پر ان کی نیت میں خرابی تھی جسے وقت نے درست ثابت کیا ۔
حقائق تاریخی دستاویزات کے مطابق اس جعلی الحاق کا کوئی ثبوت موجود ہی نہیں ۔
ایلسٹر لیمب برطانوی محقق
اس فوجی قبضے کو جعلی قرار دیتے ہیں جبکہ
05اگست 2019 کو مودی حکومت نے
اس جبری قبضے کو غیر قانونی و غیر آئینی اقدام کے ذریعے ایک نئی شکل دے دی جو کہ 27اکتوبر 1947ہی کے جبری قبضے کی ایک دوسری شکل ہے فرق صرف اتنا ہے 27اکتوبر 1947 کے بعد بھارت کو کاٹھ کے گھوڑے مل گئے جو دلی کے اشارے پر ریاست کے تاج کے بدلے کشمیری عوام کی خواہشات کا سودا کرتے رہے
اور بھارت نواز سیاست دان کہلائے جبکہ موجودہ قبضے کے بعد ریاست کی تمام جماعتیں بشمول حریت کانفرنس اس غیر آئینی اقدام کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔
27اکتوبر1947کے قبضے کے بعد بھی جموں وکشمیر کے عوام نے اسے تسلیم نہیں کیا اور مزاحمت کی جبکہ 05اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کو تو جموں وکشمیر کے سبھی طبقات مسترد کر چکے ہیں سوائے ان مجبوروں کے جو سرکاری نوکریوں اور دلی سے مفادات کے کھونٹے سے بندھے ہیں ۔
ان دونوں مواقع پر اہل جموں وکشمیر کی جانب سے سیاسی سفارتی سطح پر جدوجہد جاری رہی، جبکہ سفارتی سطح پاکستان ان کی ہمیشہ آواز بنا
اور دنیا کے انصاف پسند لوگ اس آواز کے ہم آواز بنے
05اگست کو ریاست جموں وکشمیر کی ہیت بدلتے ہوئے اسے غیر قانونی یونین بناکر مودی حکومت نے دراصل ان ہند نوازوں کو ہی رد کیا
جو 1947سے ان کے سیاسی مفادات کی تکمیل میں ممد و معاون رہے یہ اقدام ان کی سوچ سے بھی دور ایک جارحانہ معاندانہ قدم تھا اور یہ ہر مکتب فکر اور مذہب و ثقافت کے لوگوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا
اسی طرح جس طرح 27اکتوبر 1947 کابھارتی قبضہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا ۔
یہ الگ بات ہے کہ مودی سرکار اس وقت جبر کے لٹھ سے ہانکے ہوئے لوگوں کو جبری ہندوستانی بنانا چاہتی ہے اور ان میں بھارت سے آئے سابقہ فوجیوں بھکاریوں شرناتھیوں یاتریوں کو بھی جموں و کشمیر کے ڈومیسائل دے کر بسا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کشمیری تھے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ جموں وکشمیر کے اصل باشندے جموں وکشمیر میں بسنے والے اکثریتی مسلمان ہیں جن کے مختلف طبقات کشمیری پہاڑی گوجری ہیں اس کے علاوہ لداخ کے بودھ مذہب لوگ جموں کے ڈوگرہ، وادی کے پنڈت سکھ جو اس ریاست میں صدیوں سے آباد ہیں اور یہ سب اپنی شناخت میں کشمیری تھے اور رہیں گے چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل مذہب زبان اور سیاسی مکتب فکر سے ہو
یہ حقائق بتاریے ہیں کہ کچے دھاگوں سے باندھے گئے جبری رشتے زیادہ دیر نہیں چل سکتے
اصل رشتے مٹی کے خمیر میں گندھے وہ مضبوط رشتے ہیں جو مختلف مذہب رنگ نسل زبان کے باوجود جموں وکشمیر کی مشترکہ ثقافتی میراث سے جڑے اور آپسی تہذیبی رشتوں میں بندھے ہیں
یہی مسلمان پنڈت بودھ ڈوگرہ سکھ اصل کشمیری ہیں جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہ رہے ہیں اور آئندہ بھی رہ سکتے ہیں
بھارت سے لائے گئے اجنبی لوگ ان کے لیے اجنبی تھے اور رہیں گے کیونکہ جبر کا رشتہ چار دن ہی چلتا ہے #

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button