مقبوضہ جموں وکشمیر صحافیوں کیلئے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں شامل، کشمیرمیڈیا سروس کی رپورٹ
مقبوضہ علاقے میں 1989سے اب تک 20صحافی قتل
سرینگر: مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کے ان خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے جہاں صحافت اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد مشکل ترین حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
آج ”آزادی صحافت کے عالمی دن“ پرکشمیرمیڈیاسروس کے ایڈیٹر رئیس احمد میر کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں 1989سے اب تک کم از کم20صحافی اپنے پیشہ فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے گئے ۔قتل کئے جانیوالے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، محمد شعبان وکیل، خاتون صحافی آسیہ جیلانی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، پرویز محمد سلطان، شجاعت بخاری، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی، الطاف احمد فکتو، سیدان شفیع، طارق احمد، عبدالمجید بٹ، جاوید احمد میر، پی این ہنڈو، محمد شفیع، پردیپ بھاٹیہ، اشوک سودھی اور رئیس احمد بٹ شامل ہیں۔رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنا، اغوا، قاتلانہ حملے ، گرفتاریاں،تھانوں میں طلبی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے ۔رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ بھارتی پولیس اور بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے اہلکاروں نے مقبوضہ علاقے میں آزادی کے حق میں مظاہروں کے دوران بھارتی فوجیوں کے ظلم وستم کو اجاگر کرنے پرفوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو 4 مارچ 2017کو، عاقب جاوید حکیم کو 2جولائی 2019کو ، خالد گل کو 6 دسمبر2022، منان گلزار ڈار کو 10 اکتوبر 2021 ، سرتاج احمد بٹ کو 14مارچ 2023 اوررﺅف احمد وانی کو 15مئی 2023گرفتار کیا تھا۔انہیں بعد ازاں طویل نظربندی کے بعد رہاکیاگیا۔ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 8 اگست 2019 کوگرفتار کئے گئے ایک اور صحافی قاضی شبلی کو23 اپریل 2020کو رہا کیا گیا۔کشمیری صحافی آصفسلطان جنہیں 27اگست 2018کو گرفتار کیا گیا تھا، کو رواں برس فروری میں رہا کیا گیا تاہم یکم مارچ کو انہیں دوبارہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ۔ دیگر صحافی ماجد حیدری ، سجاد گل ، سرتاج الطاف بٹ اور عرفان معراج اب بھی بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بندہیں۔قابض انتظامیہ کی طرف سے صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی خصوصا مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال سے متعلق خبریں اوربھارتی فوجیوں کی طرف سے تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹیں منظر عام پر لانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ ایک فری لانس فرانسیسی صحافی کومیٹی پال ایڈورڈ کو بھارتی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھاجب وہ 10 دسمبر2017کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سرینگر میں پیلٹ گن کے متاثرین کی تصاویر بنا رہے تھے۔ کومیٹی پال ایڈورڈ نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بدترین قسم کے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور بھارت نہیں چاہتا کہ کشمیر میں ہونےوالے مظالم دنیا کے سامنے آئیں۔ انہوں نے 2018میں ریلیز کی گئی اپنی دستاویزی فلم میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کو بے نقاب کیاتھا۔بھارت میں واشنگٹن پوسٹ کی بیورو چیف اینی گوون کو قابض حکام نے 31جولائی 2018کو سرینگر کے ایک گھر میں نظربند کر دیا تھا اور انھیں رپورٹنگ کے لیے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ایک عالمی ایوارڈ یافتہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو امیگریشن حکام نے 02 جولائی 2022 کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اس وقت روکا جب وہ پیرس میں فوٹو گرافی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں ۔ انہوں بھارتی امیگریشن نے 17 اکتوبر 2022 کو دوبارہ نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اس وقت روکا جب وہ Pulitzerنعام حاصل کرنے کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔۔ فری لانس صحافی آکاش حسن کو بھی26 جولائی 2022 کو نئی دہلی ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور سری لنکا نہیں جانے دیا گیا۔
بھارت نے اگر چہ مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کر رکھا ہے تاہم کشمیری صحافی میڈیا کی آزادی پر بھارت کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مقامی صحافی تنظیموں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں جاری بھارتی جبر کانوٹس لے اور صحافی آزادی یقینی بنانے کیلئے بھارت پر دباﺅ ڈالے۔