بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسرائیلی طرز کے نوآبادیاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے
سرینگر: سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی پالیسیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک میں مماثلت پائی جاتی ہے اوربھارت علاقے میں اسرائیل کی طرز پر نوآبادیاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق دونوں مقبوضہ علاقوں کے درمیان کئے گئے موازنے سے مقبوضہ آبادیوںکے حقوق اور آزادیوںکو دبانے کے لیے بھارت اور اسرائیل کی جانب سے استعمال کی جانے والی حکمت عملیوں میں مماثلت واضح ہوتی ہے۔نریندر مودی کے ایک بارپھر منتخب ہونے کے بعد ان کی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ایک کٹر ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس سے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے سخت گیر طرز عمل کی عکاسی ہوتی ہے۔ متنازعہ ڈومیسائل قانون جس کے تحت غیر کشمیریوں کو علاقے میں رہائش کے حقوق دیے گئے ہیں، مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے نوآبادیاتی منصوبے کی ایک شکل ہے تاکہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیاجائے۔بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں پرتشدد کارروائیوں کے لیے اسرائیل میں تربیت حاصل کی ہے اوروہ فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈے کشمیریوں پر آزمارہے ہیں۔ مودی حکومت کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے، معاشی تباہی اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی، یہ سب اسرائیلی ہتھکنڈے ہیں جو وہ فلسطین میں استعمال کررہا ہے۔آنند رنگناتھن جیسے تجزیہ کاروں نے کھلے عام کشمیر کے لیے”اسرائیلی طرزکے حل” کا مطالبہ کیا ہے جس سے بھارتی اقدامات کے پیچھے اصل سوچ ظاہرہوتی ہے۔
دریں اثناء کشمیری اور فلسطینی جن کوبین الاقوامی قوانین کے برخلاف غیر قانونی قبضے کا سامنا ہے، مسلسل اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کو اب انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک سمجھا جاتا ہے اوران کے درمیان قریبی فوجی تعاون انسانیت اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ مداخلت کرکے مقبوضہ جموں وکشمیراور فلسطین کے لوگوں کو ان کے پیدائشی حق کے حصول میں مددکرے۔