مقبوضہ جموں و کشمیر

یکم اکتوبر 2001 کوسرینگر میں اسمبلی حملے کی منصوبہ بندی بھارت نے کی تھی:جرمن صحافی

سرینگر:غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں قانون ساز اسمبلی پر حملے کو آج 23 برس مکمل ہوگئے جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ علاقے میں بھارتی فورسز کا ایک فالس فلیگ آپریشن تھا۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یکم اکتوبر 2001کو سرینگر شہر میں واقع اسمبلی کی عمارت کے مین گیٹ سے بارود سے بھری ایک گاڑی ٹکرا دی گئی جس میں 38افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔پھر بھارتی حکومت نے کشمیری آزادی پسندوں کو حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ہمیشہ کی طرح نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر ڈالنا شروع کر دیا۔ بھارتی حکومت کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق تھا یا پہلے سے طے شدہ منصوبہ کہ حملے میں کوئی بھی رکن اسمبلی مارا نہیں گیا جبکہ کئی سینئر لیڈر پہلے ہی عمارت سے نکل چکے تھے۔بھارتی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اپنے حریفوںکے خلاف جنگ کوبھرکانے یا جواز فراہم کرنے کے لیے جعلی آپریشنز کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی عادی ہیں۔ بھارت اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے مستقل طور پر دھوکہ دہی،فریب، پروپیگنڈہ اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردکارروائیوں جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا سہارا لیتارہا ہے جن میںکشمیریوں اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔جرمنی کے تحقیقاتی صحافی الیاس ڈیوڈسن نے اپنی کتاب”دی بیٹریل آف انڈیا: ری وزیٹنگ دی26/11ایویڈینس”میں کہتے ہیں کہ بھارت کی 1971سے لے کر آج تک فالس فلیگ آپریشنز کی ایک تاریخ ہے۔ جب بھارت کو لگتا ہے کہ وہ اندرونی انتشار سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے، تووہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے جعلی آپریشنز کا سہارا لیتا ہے۔ بھارت نے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے بین الاقوامی فورموں پر ان آپریشنز کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ بھارت کی ہندوتوا حکومت اپنے بیانات اور زرخریدمیڈیا کے ذریعے اب بھی جھوٹے بیانیے کا پرچار کر رہی ہے اور پاکستان اور کشمیریوں کے استصواب رائے کے مطالبے کے خلاف پروپیگنڈاکر رہی ہے۔ تاہم ایسا کرکے بھارتی حکومت خود جنوبی ایشیا کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کے جعلی آپریشنز کو بے نقاب کیا جائے اور ا ن کا خاتمہ کیا جائے،بصورت دیگر اس جوہری خطے میں اس طرح کے جعلی آپریشنز کے نتائج کسی کے تصور سے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button