مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد علاقے میں بھارتی مظالم جاری ہیں : ہیومن رائٹس واچ
نیویارک 02اگست(کے ایم ایس)انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہاہے کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے تین سال بعد علاقے میں آزادی اظہار، پرامن اجتماع اور دیگر بنیادی حقوق پر پابندی عائد ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے آج ایک بیان میںکہا کہ بھارتی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں اور فورسز کے مظالم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے میں ناکامی سے کشمیریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔بھارتی حکومت نے5اگست 2019کو سیکورٹی اور اصلاحات کا وعدہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کو منسوخ کر دیا اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیاتھا۔ حکومتی کارروائی کے کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں سینکڑوں لوگوں کی جبری گرفتاری، مکمل مواصلاتی بلیک آٹ اور نقل و حرکت کی آزادی اور پرامن اجتماع پر سخت ترین پابندیاں شامل تھیں۔ قابض حکام نے میڈیا اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے خلاف کریک ڈائون کو تیز کر دیا ہے اور انسداد دہشت گردی اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے قوانین کااندھا دھند استعمال کیاگیا۔ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے تین سال بعدبھارتی حکام انسانی حقوق اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے بجائے حالات کو معمول کے مطابق دکھانے کے لئے زیادہ فکر مند نظر آتے ہیں۔حکومت کو بنیادی آزادیوں پر حملوں کو ختم کرنے اور خطرے سے دوچار اقلیتی گروہوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکام نے جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے الزامات کے تحت چھاپے مارنے اور صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی رہنمائوں کو بغیر ثبوت اور بامعنی عدالتی کارروائی کے من مانی طور پر حراست میں لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حکام نے کئی ممتاز کشمیریوں کو بغیر وجہ بتائے بیرون ملک سفر کرنے سے بھی روک دیا ہے۔نومبر 2021میں حکام نے انسانی حقوق کے ایک ممتاز کشمیری کارکن خرم پرویز کو انسداد دہشت گردی اورغیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت گرفتار کیا۔ 44 سالہ پرویز جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹر اورAsian Federation Against Involuntary Disappearancesکے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے جبری گمشدگیوں کے کیسوں کو دستاویزی شکل دی ہے اور کشمیر میں گمنام قبروں کی چھان بین کی ہے جس کے نتیجے میں بھارتی حکام نے انہیں بارہا انسانی حقوق کے کام پر نشانہ بنایا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنون کی بنیادی آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے UAPAکو استعمال کر رہی ہے۔کشمیر میں صحافیوں کو بھارتی فورسز کی طرف سے بڑھتی ہوئی ہراسانی کا سامنا ہے، جس میں دہشت گردی کے الزام میں چھاپے اور جبری گرفتاریاں شامل ہیں۔ بھارت میں حکام نے جموں وکشمیر میںسب سے زیادہ وقت کے لئے انٹرنیٹ پر پابندی لگادی ۔اگست 2019 کے بعد سے کشمیر میں کم از کم 35 صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ پر پولیس سے پوچھ گچھ، چھاپوں، دھمکیوں، جسمانی حملوں، نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیوں یا من گھڑت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جون 2020میںحکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا جس نے حکام کے لیے خطے میں خبروں کو سنسر کرنا آسان بنا دیا۔ 2022 میں حکام نے فہد شاہ، آصف سلطان، اور سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کیا جب انہیں دیگر مقدمات میں ضمانت مل گئی تھی۔2019 کے بعد سے بھارتی فورسز انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے جن میں ہراسانی اور ناروا سلوک، جبری گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ مارچ 2021میں اقوام متحدہ کے پانچ ماہرین نے بھارتی حکومت کو خط لکھ کر کشمیری سیاست دان وحید پرہ کی نظربندی، ایک دکاندار عرفان احمد ڈار کی حراست میں مبینہ قتل اور ضلع شوپیاں کے رہائشی نصیر احمد وانی کی جبری گمشدگی کے بارے میں معلومات طلب کیں۔ لیکن ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی حالیہ اورماضی کی خلاف ورزیوں پر کوئی جوابدہی نہیں کی گئی کیونکہ بھارتی فورسز کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔