پاکستان

افتخار گیلانی کی تصنیف” اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان:سیاست اور سماج کے آئینے میں “‘ کی تقریبِ رونمائی

اسلام آباد: معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی کی تازہ تصنیف” اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان:سیاست اور سماج کے آئینے میں “‘ کی تقریبِ رونمائی آج انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز (اآئی پی ایس ) میں اسلام آباد میں ہوئی ۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق کتاب میں بھارت کی مسلم اقلیت اور ریاست کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا گہرائی سے جائزہ فراہم کیا گیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ان پالیسیوں کے اثرات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں جو بھارت کی سیاسی اور ثقافتی شناخت کو دوبارہ تشکیل دے رہی ہیںاور جن کے م±سلم اور دیگر اقلیتوں پر نمایاں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سابق سیکرٹری خارجہ اور بھارت میں سابقہ ہائی کمشنر سہیل محمود کی زیر صدارت ہونے والی اس تقریب میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین نے اظہارِ خیال کیا ، جبکہ اس موقع پر ممتاز اسکالر اور آئی پی ایس کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر خورشید احمد، سابق سینیٹر اور معتمر العالم الاسلامی کے سیکریٹری جنرل راجہ محمد ظفر الحق اور بھارت میں پاکستان کے سابقہ ہاءکمیشنر سابق سفیر عبدالباسط کے تبصرے بھی پیش کیے گئے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اپنے جائزے میں بھارت میں مسلمانوں کے سماجی و سیاسی مسائل اور سیکولر اقدار کی زوال کی جانب توجہ دلائی اور کتاب کو مسلم کمیونٹی کو درپیش سخت حقائق کا ایک اہم انکشاف قرار دیا۔ راجہ ظفر الحق نے ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اقلیتوں کی منظم طور پر پسماندگی کا زکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور حقوق کا دفاع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سفیر عبدالباسط نے کتاب کے تین دہائیوں کے دوران پالیسی کے اثرات کے مکمل تجزیے کی تعریف کی اور اسے بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ضروری قرار دیا۔ سفیر سہیل محمود نے اس بات پر زور دیا کہ "ہندوستان شناسی” علمی تجسس سے بالاتر ہے، یہ پاکستان میں موثر پالیسی سازی کے لیے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ بھارت کی داخلی حرکیات کا ایک منظم اور گہرا مطالعہ کرتے ہوئے فرقہ واریت، آمریت اور سماجی اقتصادی عدم مساوات جیسے مسائل کو زیرِ غور لانا ، زیادہ باخبر فیصلہ سازی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ مقررین نے کہا کہ بھارت کے سماجی سیاسی منظرنامے کو سمجھنا پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے، خاص طور پر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر کشمیریوں اور مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے کے حوالے سے۔ انہوںنے ”نظریہ پاکستان “کی تجدید اور اس کی تشہیر کی اہمیت پر زور دیااور کشمیر کی تحریک کو ایک مربوط بیانیے کے ذریعے پیش کرنے کی ضرورت پر اصرار کیا تاکہ کشمیر اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر بین الاقوامی فورم پر ایسی وکالت کی جا سکے جو خطے کے نظریے، تاریخ اور جدوجہد کے اچھی طرح سے تیار کردہ دستاویزی بیانیے پر مبنی ہو۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ کتاب ‘اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان’ محض مضامین کی تالیف نہیں ہے ، بلکہ بھارتی ریاست اور مسلم اقلیت کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات کا ایک بامعنی ریکارڈ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت پر موجودہ مباحث کا زیادہ تر دائرہ کار میڈیا کی تصویر کشی اور بڑے شہری مراکز تک محدود ہے، جو بھارت کی جمہوریت، سماجی ڈھانچوں اور بدلتی ہوئی نظریات کی ان پیچیدگیوں کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کہ بھارت کی حکمرانی، اقتصادی عدم مساوات اور اقلیتی برادریوں کو درپیش چیلنجز کو تشکیل دیتی ہیں۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button