بھارتی بجٹ میں مسلمان تعلیم اداروں کے لیے فنڈزکی عدم فراہمی پر اظہار تشویش
نئی دہلی: بھارت میں مالی سال2025-26 کے بجٹ میں اقلیتی امور کی وزارت کے لئے مجموعی طور پر اضافے کے باوجود مدارس کے لیے محض ایک لاکھ روپے کی معمولی رقم مختص کرنے پرشدید تنقید کی جارہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ماہرین تعلیم اور حزب اختلاف کے رہنمائوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو نظراندازکرنے کی سوچی سمجھی سازش قرار دیاہے۔ناقدین کا استدلال ہے کہ گزشتہ سالوں میں زبردست کٹوتیوں کے بعدفنڈنگ میں جمود بی جے پی حکومت کی اقلیتی تعلیم کو نظر انداز کرنے کا اشارہ ہے۔ ایک اسلامی اسکالر مولانا ارشد قاسمی نے اسے ہزاروں مسلمان طلباء کو غیر یقینی کی طرف دھکیلنے کی کوشش قرار دیا۔بجٹ میں اقلیتی تعلیمی پروگراموں کے لیے فنڈنگ میں بھی کمی کی گئی ہے جن میںپری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اور مفت کوچنگ اسکیمیں شامل ہیں۔ تعلیمی پالیسی کے ماہر ڈاکٹر شکیل احمد نے کٹوتیوں کی مذمت کرتے ہوئے خبردارکیاکہ اسے طویل مدت میں اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔اسد الدین اویسی اور سلمان خورشید سمیت حزب اختلاف کے رہنمائوں نے کہاکہ مودی حکومت منظم انداز میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے بجٹ کو مسلم تعلیمی حقوق پر حملہ قرار دیاجبکہ صحافی فرح نقوی نے کہا کہ اسے اقلیتوں کے تئیں بی جے پی کی بے حسی بے نقاب ہوتی ہے۔ اقلیتی فلاح و بہبود کے حکومتی دعوئوں کے باوجود بجٹ میں مدارس کوفنڈز فراہم نہ کرنے سے بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم کو نشانہ بنانے پر تشویش بڑھ گئی ہے۔