شہید کشمیر محمد مقبو ل بٹ 18 فروری 1938 کو مقبوضہ وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے گاوں تریہگام میں غلام قادر بٹ کے گھرپیدا ہوئے ۔ سرزمین کشمیر کے اس عظیم بیٹے نے نہ صرف اپنی زندگی وطن کی آزادی کے مشن کے لیے وقف کئے رکھی بلکہ اسی آزادی کے حصول کی خاطر اپنی جان بھی نچھاور کر دی ۔ مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں کے سکول سے ہی حاصل کی۔ آپکے دورِطالبعلمی کا ایک اہم واقعہ ہے کہ جن دنوں آپ سکول میں پڑھتے تھے اس زمانے میں ایک عام روایت یہ تھی کہ تقریبات میں امیر اور اہلِ ثروت لوگ ایک طرف بیٹھتے تھے جبکہ نادار لوگ ان سے بالکل الگ تھلگ دوسری طرف۔ یہ عام رواج تھا اور تمام سرکاری اور نجی تقریبات میں اس ترتیب کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایک برس مقبول بٹ بھی ان طلباءمیں شامل تھے جنہیں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر اپنا انعام وصول کرنا تھا۔ رواج کے مطابق سکول کی سالانہ تقریبِ انعامات کے لیئے نشستیں اس طرح لگائی گئیں کہ امیر طلبا ءاور انکے والدین کے لئے تقریب میں نشستیں ایک طرف مختص کی گئیں جبکہ غریب طلباءاور انکے والدین کے لیے نشستیں دوسری طرف لگائی گئیں۔ مقبول بٹ کی نشست بھی غریب اور نادار لوگوں کی طرف لگائی گئی لیکن انہوں نے وہاں بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنا انعام اس وقت تک وصول نہیں کریں گے جب تک تمام طلباءایک ساتھ ایک طرف اور تمام والدین ایک ساتھ دوسری طرف نہیں بٹھائے جاتے۔ سکول انتظامیہ کو بالآخر مقبول بٹ کی یہ تجویز قبول کرنا پری اور تقریب تقسیم انعامات میں تمام والدین کو سماجی مقام اور مرتبے سے قطع نظر ایک طرف بٹھایا گیا اور تمام طلباکو ایک ساتھ دوسری طرف بٹھایا گیا۔ اس کے بعد گاوں کے سکول میں ہمیشہ تقریبات میں یہی طریقہ اپنایا گیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد مقبول بٹ بچپن ہی سے معاشرتی اونچ نیچ اور امتیازی سلوک کے خلاف تھے اور اپنی بات اور اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے۔
سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے سینٹ جوزف کالج بارہ مولہ میں داخلہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ سینٹ جوزف کالج کے پرنسپل نے محمد مقبول بٹ کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایک دفعہ کہا تھا کہ یہ نوجوان اگر زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب ہو گیا تو ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا۔ آپ نے گریجویشن تک تعلیم وادی کشمیر سے ہی حاصل جس کے بعد 1958 میں اپنے چچا کے ساتھ پاکستان آ گئے اور پشاور میں سکونت اختیار کی جہاں سے آپ نے اردو ادب میں ماسٹرز کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ 1961 میں ہی آپ نے اپنی ایک عزیزہ راجہ بیگم کے ساتھ شادی کی – جن کے بطن سے 1962 میں جاوید مقبول بٹ پیدا ہوئے۔ 1963 میں آپ نے ذاکرہ بیگم کے ساتھ دوسری شادی کی۔ 1964 میں پہلی اہلیہ کے بطن سے شوکت مقبول بٹ نے جنم لیا۔ – 1966 میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری بیگم کے بطن سے بیٹی لبنیٰ سے نوازا جو آپ کی تیسری اور آخری اولاد ہیں۔سرزمین جموں وکشمیر کے معروف مصنف عبدا لرحمان قیصر اپنی تصنیف”آزادی کا سفر“میں لکھتے ہیں”پاکستان کا حامی ہونے کی پاداش میں محمد مقبول بٹ 1958میں ریاست بدر ہو کر باپیادہ پاکستان پہنچے اور پشاور میں رہائش پذیر ہوگئے، ہجرت کی صعوبتوں کا دور شروع ہو گیامگر بھارت کی غلامی کے مقابلے میںپاک وطن کی آزاد فضاﺅں سے حوصلے بلند ہوئے ، انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھا، گریجویشن وہ کشمیر میں ہی کر چکے تھے، یہاں پشاور میں ایم اے کا امتحان اعزاز کیساتھ پاس کیا۔ کچھ عرصہ درس و تدریس سے بھی منسلک رہے، وہ ایک مقامی اخبار روزمانہ انجام اور لاہور کے روزنامہ امروز کے بیورو چیف بھی رہے۔“
اپریل 1965 میں آپ نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی۔ 13 اگست 1965 کو آپ نے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر’ این ایل ایف‘ کی بنیاد رکھی ۔10 جون 1966 کے دن کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کنٹرول لائن عبور کر کے مقبوضہ جموںو کشمیر چلے گئے جہاں آپ نے این ایل ایف کے لیے تنظیم سازی اور تربیت کے کام کا آغاز کیا۔ مگر بھارتی فورسز کو آپکی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے آپ کے خفیہ ٹھکانے کو تلاش کر لیا۔ستمبر 1966 کو محمدمقبول بٹ کو دو ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر کے آپ پر بھارت کیخلاف بغاوت اور ایک سی آئی ڈی انسپکٹر امر چند کے قتل کا جھوٹا مقدمہ چلایا گیا۔ اگست 1968 میں ہائیکورٹ نے آپ کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی۔ آپ نے عدالت کے فیصلے کے بعد جج کو مخاطب کر کے کہا ” جج صاحب ! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لیے پھانسی کا پھندہ بن سکے“۔
9 دسمبر 1968 کو آپ جیل کی دیواروں میں شگاف ڈال کر جیل سے فرار ہوئے اور برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968 کوآزاد جموں وکشمیر میں داخل ہوئے۔
1976میں محمد مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں حمید بٹ اور ریاض ڈار کے ہمراہ پھر مقبوضہ جموں وکشمیر چلے گئے تاکہ تحریک کو منظم کیا جاسکے۔ لیکن ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور انہیں تہاڑ جیل دہلی منتقل کردیا گیا،ان کی سابقہ سزائے موت بحال کی گئی۔ جنوری1984میں بھارتی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقبول بٹ کو خاموشی سے پھانسی دی جائےگی اور یوں11فروری1984کی صبح کو کشمیر کے اس عظیم سپوت اور عظیم مجاہد کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اور ان کے جسد خاکی کو ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے جیل کے احاطے میں دفن کر دیا گیا۔مقبول بٹ آج ہر کشمیری نوجوان کے دل کی دھڑکن ہے۔ انکی پھانسی سے دیگر ہزاروں مقبول بٹ پیدا ہوئے جو آزاد ی کی جدوجہد جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔محمد مقبول بٹ کی پھانسی نام نہاد بھارتی جمہوریت کے ماتھے پر ایک ایسا بدنما دھبہ ہے جو کبھی دھل نہیں سکتا۔
شہید محمد مقبول بٹ کے فرزند جاوید مقبول بٹ نے اسی کی دہائی میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے محکمہ زراعت میں بطور ایگریکلچر آفیسر ملازمت حاصل کی۔ خوب محنت اور پاکستان کے محبت کے جذبے سے کام کرتے ہوئے ترقی کی راہیں عبور کیں اور آخر کار محکمے کے اعلیٰ ترین عہدے ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوئے اور چند برس قبل یٹائرمنٹ حاصل کی۔ جاوید مقبول بٹ اپنے آبائی علاقے ترہگام کو آج بھی یاد کرتے ہیں تاہم ریاست پاکستان نے انہیں جو عزت دی وہ اسکے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ انکی دختر لبنیٰ مقبول بھی کراچی یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دیتی رہیں اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہیں۔ پاکستان سے محبت اور الفت کی بدولت انھوں نے کبھی مقبوضہ کشمیر جانے کا نہ سوچا اور پاکستان کو ہی اپنا مسکن بنایا۔ جاوید مقبول بٹ کے بیٹے حکومت آزادکشمیر میں سرکاری ملازمت کر رہے ہیں۔جاوید مقبول بٹ علامہ محمد اقبالؒ کو اپنا پسندیدہ شاعر قرار دیتے ہیں۔ دین سے محبت رکھنے والے باریش جاوید مقبول بٹ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ انکے والد گرامی سید ابوالاعلی مودودی سے بے حد متاثر تھے اور انہی سے متاثر ہو کر انھوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدو جہد شروع کی تھی۔خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔