بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستان کیساتھ بلاتعطل مذاکرات کا دور اب ختم ہو چکا ہے البتہ سرحد پار سے کسی بھی قسم کے مثبت یا منفی اقدام کا جواب دینے کیلئے بھارت بالکل تیار ہے۔31 اگست کوبھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے سوال پر بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کیساتھ کس قسم کے تعلقات استوار کر سکتے ہیں؟۔ایس جے شنکر سے جب سوال کیا گیا کہ کیا بھارت موجودہ تعلقات کی سطح کو برقرار رکھنے پر مطمئن ہے تو ان کا جواب تھا کہ شاید ہاں، شاید نہیں، لیکن میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم غیر فعال نہیں ہیں اور کسی بھی قسم کے منفی یا مثبت اقدام کا جواب دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کیساتھ بلاتعطل بات چیت اور مذاکرات کا دور ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہر عمل کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے تو آرٹیکل 370 ختم ہو چکا ہے تو یہ معاملہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کیساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں؟ایس جے شنکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے، معاملات چاہے مثبت سمت میں جائیں یا منفی ہم ردِ عمل دیں گے۔
ایس جے شنکر جوبھارت کے وزیر خارجہ کم اور مودی و آ ر ایس ایس کے کارکن زیادہ لگتے ہیں کے بیان پر پاکستانی وزارت خارجہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے، اور جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ تنازعہ کشمیر سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان جموں و کشمیر تنازع کے یکطرفہ حل سے متعلق کسی بھی بیانیے کو مسترد کرتا ہے، ایسے دعوے گمراہ کن اور زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔ ممتاز زہرہ بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق اشتعال انگیز بیان بازی اور بے بنیاد دعوے ترک اورجنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے با معنی مذاکرات کا راستہ اپنائے۔پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان سفارتکاری اور بات چیت کیلئے جہاں پر عزم ہے،وہیں پاکستان دشمن کی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دے گا۔جس کا ماضی میں پاکستان اظہار بھی کرچکا ہے۔ بھارت میں2014 میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہر گزرتے دن کیساتھ خراب ہوتے رہے ہیں ۔اب تو رواں برس مسلسل تیسری مرتبہ عام انتخابات میں گو کہ پہلی جیسی نہیں،لیکن اتحادی جماعتوں کیساتھ حکومت بنانے کے بعد نریندر مودی کا اقتدار کے راج سنگھاسن پر براجمان ہونے سے ایک طرف بی جے پی نے انتہا پسند ہندوتوا پالیسیوں کا اطلاق جاری رکھتے ہوئے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے جینا دوبھر کیا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے سنگین جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔05اگست 2019 میں نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجے سے متعلق آرٹیکل 370 اور35 اے ختم کرکے اس سے نہ صرف دو حصوں میں تقسیم بلکہ بھارت میں ضم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔بھارتی حکمرانوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر آبادیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پینتالیس لاکھ ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا ،حلقہ بندیوں کے نام پر ریاست کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہر حال میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا جائے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول وعرض میں لوگوں کی جائیداد و املاک اور رہائشی مکانات کو قبضے میں لینے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آرٹیکل 370 کی موجودگی میں ریاست جموں و کشمیر کو جہاں خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا وہیں یہ آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی بھی دیتا تھا۔مودی کی جانب سے ان تمام اقدامات کے بعد اس کے وزیر خارجہ کا تازہ بیان کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ بھارتی حکمران اپنی طرف سے بظاہر مسئلہ کشمیر ختم کرچکے ہیں اور وہ اس کا دعوی بھی کرتے ہیں۔یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے بلکہ اس سے قبل بھی بھارتی حکمران اسی طرح کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ایس جے شنکر نے تو اب بڑا ہی دعوی کیا ہے ۔پھر اپنے دعوے میں وزن پیدا کرنے کیلئے اس نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا حوالہ دینا بھی ناگزیر سمجھا ہے ۔حالانکہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کا مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ دونوں دفعات ریاست کو ایک قانونی تحفظ فراہم کرتی تھیں اور ان کی موجودگی میں کوئی بھارتی شہری نہ تو یہاں کوئی زمین و جائیدا د خرید سکتا تھا اور نہ ہی نوکریوں کا حصول ان کیلئے ممکن تھا۔یہ دونوں آرٹیکلز بھارتی آئین کا حصہ تھے ،جنہیں کسی اور نے نہیں بلکہ ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کیساتھ ایک باضابطہ معاہدے کے تحت بھارتی آئین کا حصہ بنوایا۔ جواہر لعل نہرو کی ہدایت پر اس وقت کے بھارتی صدر رجندرا پرساد نے دفعہ 370 کے تحت 1954 میں حکم نامہ جاری کیا جسے دفعہ 35-اے کا نام دے کر بھارتی آئین کا حصہ بنایا گیا۔بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی وجہ سے صرف تین معاملات ہی بھارتی حکومت کے پاس تھے، جن میں دفاع، خارجہ اور مواصلات سے متعلق امور شامل ہیں جب کہ ذیلی شق دفعہ 35-اے کے تحت جموں کشمیر کو ریاست کی حیثیت حاصل تھی اور تمام امور کا فیصلہ مقامی ریاستی اسمبلی کے ہاتھ میں تھا۔دفعہ 35- اے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ مستقل رہائشیوں کا تعین کرنے کیلئے قانون سازی کرے۔دفعہ 35-اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔دفعہ 35-اے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔لیکن اب جبکہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا گیا ہے ۔ایسے میں کشمیری عوام کایہ تذبذب اپنی جگہ درست اور برحق ہے کہ بھارت کی دوسری ریاستوں سے آکر لوگ یہاں جائیداد خریدیں گے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔بی جے پی عرصہ دراز سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کی سخت مخالف رہی ہے اور یہ اس کے انتخابی منشور کا بھی اہم حصہ رہا ہے اور پھر اس نے اس خصوصی حیثیت کو منسوخ بھی کیا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق جموں کشمیر کو جداگانہ حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے موقع پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کا مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان شقوں کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر کوئی فرق یا اثر پڑسکتا ہے۔مشیل بیچلیٹ کا یہ بیان مودی اور اس کے قبیل کیلئے یہ واضح پیغام تھا کہ تم اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کو ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی مہذب دنیا کیلئے بھارتی اقدامات کو تسلیم کرنا ممکن ہوگا،اور پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انیتونیو گوتریس نے08اگست 2019 میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر آج بھی اپنی جگہ موجود اور حقیقت حال کچھ اور بیان کررہی ہے کہ اہل کشمیر نے کبھی بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور آج جبکہ حالات کا تمام تر جبر کشمیری عوام پر مسلط ہے ،لیکن ان حالات میں بھی کشمیری عوام کو داد دینی چاہیے کہ وہ مودی کی سفاکانہ پالیسیوں کو ایک لمحے کیلئے بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ گو کہ پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبرستان کی سی خاموشی طاری ہے لیکن یہ خاموشی اپنے اندر ایک طوفان لیے موجودہے اور لمحہ بھر کیلئے ایک لاوا کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔جس کا عملی مظاہرہ 2010 اور2016 میں چشم فلک دیکھ چکی ہے جب بھارت اوراس کی دس لاکھ فوجی قوت اہل کشمیر کے سامنے بے دست وپا ہوچکے تھے۔خود مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادت بار بار یہ باور کراچکی ہے کہ جموں و کشمیر کو حاصل ریاستی حیثیت کی منسوخی کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ محبوبہ مفتی نے یہ تک کہا تھا کہ جموں کشمیر ریاست میں بھارتی ترنگے کو تھامنے والا کوئی نہیں رہے گا۔البتہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج جب بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی اسمبلی کیلئے انتخابات کرارہا ہے تو ان انتخابات میں وہ لوگ اور جماعتیں بھی قلیل تعداد ہی صحیح شریک ہیں جو مسئلہ کشمیر پر ایک مخصوص اورمنفرد موقف کی حامل تھیں۔یہ توجہ طلب اور غور وفکر کا معاملہ ہے۔حالانکہ پوری آزادی پسند قیادت تہاڑ سمیت بھارت کی دور دراز جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہی ہیں اور ان کی جانب سے ان بھارتی انتخابات کو ڈھونگ اور فراڈ سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔تحریک آزادی اور اس تحریک کیساتھ وابستہ قیادت کیلئے دعوت فکر ہے کہ اب تو خود احتسابی ناگزیر ہے۔پاکستان جو مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے ،کوبھی مسئلہ کشمیر پر اپنی پالیسیوں میں از سر نو تجدید کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ۔یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ صرف پاکستان ہی اہل کشمیر کا وکیل ہے ۔مفادات کے تضاد نے دنیا کو تقسیم کررکھا ہے ۔اس صورتحال میں پاکستان اہل کشمیر کی دامے ،درمے ، قدمے اور سخنے حمایت کا فریضہ انجام دیکر ذمہ داریاں نبھارہا ہے ۔ان ذمہ داریوں کو درست سمت میں انجام دینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔کیونکہ پاکستان کا آج بھی موقف ہے کہ جموں و کشمیر کے پرانے درجے کی بحالی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل تک بھارت کیساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی و تجارتی روابط بحال نہیں ہو سکتے،سختی کیساتھ کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔بلاشبہ بھارتی وزیر خارجہ کا مسئلہ کشمیر سے متعلق تازہ بیان ان کی سفارتی سطح پر جان بوجھ کر لاعلمی کا عکاس ہے ۔کیونکہ مسئلہ کشمیر جو کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور اس پر اقوام متحدہ کی ڈیڑھ درجن سے زائد قرار دادیں موجود ہیں،گزشتہ 77 برسوں سے حل طلب ہے،جس کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیری شدید مشکلات و مصائب سے دوچار ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ کی لن ترانی پر ہنسا ہی جاسکتا ہے ۔