مضامین

"کاش پیلٹ مجھے لگ جاتے، تمہیں نہ لگتے۔”

images (3)     ریاست جموں کشمیر جہاں بھارت نے ہزاروں کشمیری شہریوں کو پیلٹ گنوں کے مہلک حملوں سے اندھا کردیا ہے۔

جموں کشمیر گزشتہ تینتیس برسوں سے مستقل جلتا، سلگتا، تڑپتا، دہکتا اور فنا کے گھاٹ اترتا رہا ہے۔

بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں کشمیر جہاں آزادی، حقوق  اور انصاف کی بات کرنا اپنی جان کھو دینے، عزت گنوا دینے ، خود کو سال ہا سال کیلئے پس زنداں پھنکوا دینے اور جیتے جی رب کی کائینات کو دیکھنے سے خود کو محروم کردینے والی بات ہے کیونکہ بھارتی "دہشت گرد” جنہیں سیکیورٹی فورسز کہا جاتا ہے وہ انسانی قدرون سے کلی طور ہر عاری جتھے ہیں جو کشمیری عوام کو ہر وقت بری طرح سے کچل دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔

بھارتی سفاک فوجیوں نے عوامی مزاحمت سے گھبرا کر اپنی بزدلی اور ناکامیوں کو چھپانے کیلئے 2010 میں پہلی بار نہتے کشمیری شہریوں پر انتہائی مہلک، تباہ کن ہتھیار پیلٹ گنز کا بے دردی اور بے رحمی سے استعمال کیا۔ قابضین نے معصوم کشمیری بچوں، بچیوں، نوجوانوں ، بزرگوں سمیت سامنے آنے والے ہر کشمیری شہری کو پیلٹ گن سے چھلنی کیا۔ پیلٹ گنوں کے ہلاکت خیز بھارتی حملوں میں 130 کے قریب شہری شہید ہوئے ۔

غیر جانبدار تنظیموں کی تحقیق کیمطابق بھارتی فوجیوں نے 3800 سے زائد شہریوں کو پیلٹ گنوں سے بری طرح زخمی کیا انکے چہرے بگاڑ دیئے یا انہیں اندھا بنا دیا ‘ کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں ایسے کیسز بھی موجود ہیں جو "دہشت گرد سکیورٹی فورسز” کے ڈر سے خود کو سامنے ہی نہیں لا پائے۔ ایک وقت میں بھارتی فوجیوں نے ہسپتالوں پر چھاپے مار کر زیر علاج کئی نوجوانوں کو اس لیئے گرفتار کرلیا کہ زخمی ہونے والا انکی نظر میں مزاحمتی تحریک کا حصہ ہے۔500-pellet-victims-below-20-kashmir-media-1513927407-5728

پیلٹ متاثرین کی ایک تنظیم جس میں 1233 افراد رجسٹرڈ تھے بتایا جاتا ہیکہ ان میں سے بیشتر خدانخواستہ زندگی سے مایوس ہوچکے تھے کیونکہ وہ خود کی بینائی کھو کر اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ۔ اسی تنظیم کہ ایک اہم بانی رکن محمد اشرف وانی کی اپنی دائیں آنکھ بھی پیلٹ گن کے حملے کی وجہ سے بینائی کھو چکی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’وہ تنگ ہوتے ہیں وہ شور سننا نہیں چاہتے بس وہ صرف تنہا رہنا چاہتے ہیں۔‘

پیلٹ گنوں سے اندھے ہوئے کشمیری شہریوں کیلئے یہ دنیا ایک ایسا ظلمت کدہ بن گئی ہے کہ جس میں انہیں جینے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔

بھارتی فوجیوں نے 19 ماہ کی کم سن بچی حبا جان کو بھی پیلٹ کا شکار بنا دیا تھا اسے معلوم نہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا کیوں اور کیسے ہوا۔ وہ انکھ سے خون بہنے کی وجہ سے شدید درد محسوس کرتی رہی ۔ حملے کے وقت ان کے والد 40 سالہ ناصر احمد ایک مزدور ہیں جب یہ واقعہ پیش آیا وہ گھر سے دور کھیتی باڑی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ‘کاش پیلٹ مجھے لگ جاتے، تمہیں نہ لگتے۔‘

وادئ کشمیر میں شہری ہلاکتوں پر ایک گاؤں میں ہو رہے عوامی احتجاج کے دوران کھڑکی سے دیکھ رہی پندرہ برس کی انشاء مشتاق پر فورسز نے پیلٹ گن سے حملہ کیا جس کیوجہ سے انشاء بینائی سے محروم ہوگئی ۔ بعد میں بصارت سے محروم انشاء مشتاق نے تکلیف دہ صورتحال کے باوجود دسویں کلاس کا امتحان پاس کیا۔ images (6)

بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے محمد کبیر پر پیلٹ گن کے شدید حملے سے چہرہ شدید متاثر ہوا اور انکی  دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی ۔ 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک شہید کی تدفین سے واپس گھر آ رہے تھے۔

احمد ڈار ایک کشمیری نوجوان جسے بھارتی فورسز نے گریجویشن کے آخری سال میں پیلٹ گن کے حملے کا نشانہ بنا دیا تھا۔ جنہیں پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی تقریباً ایک سال تک مکمل اندھیرے میں رہنے کے بعد ان کی بائیں آنکھ میں تھوڑی بینائی واپس آئی ہے‘۔

بھارتی قابضین نے ایک نوجوان فراز احمد کو دوران احتجاج بکتر بند گاڑی سے پیلٹ گن کا نشانہ بنایا ۔ سرینگر میں ایک 18 برس کا کشمیری بچہ جب وہ اپنی ٹیوشن کلاسز کے لیے جا رہا تھا تب اسے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا ہدف بنایا۔hiba

21 برس کے محمد مشتاق جب وہ راشن خریدنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تب ان پر پیلٹ گن سے فائرنگ کر دی گئی مشتاق اپنی بائیں آنکھ کی بینائی کھو چکے ہیں جبکہ وہ اپنی ‘دائیں آنکھ کی بینائی واپس حاصل کرنے کی اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جس کہ مہنگے علاج کیلئے ان کے والدین گھر اور دیگر جائیداد بیچنے پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح سینکڑوں ایسے نوجوان ہیں جو پیلٹ گنوں کے حملوں میں شدید زخمی ہوئے لیکن انکے والدین کے پاس علاج کیلئے رقم دستیاب نہیں جو اپنے مریضوں کا علاج کروا سکیں۔

اعداد و شمار کے مطابق صرف 2016 میں غاصب فورسز کی طرف سے پیلٹ گنز کے شدید حملوں میں تقریباً 1380 افراد کلی یا جزوی طور پر بینائی سے محروم ہو گئے ۔ ان میں سے 60 افراد کی دونوں آنکھیں پلیٹ کے چھروں کا شکار بنا دی گئی تھیں۔e77ac1ff-f7d5-4818-bacb-1857424239f7

وادئ کشمیر میں 2010 سے بھارتی حکومت کی ایما پر سفاک بھارتی فوجی جانوروں پر استعمال ہونے والی مہلک پیلٹ گن کا آزادانہ استعمال کررہے ہیں۔ جس کے زریعے وہ اپنے حقوق اور بھارتی دہشت گردی کیخلاف احتجاج کررہے نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر انکی اور سارے خاندان کی دنیا کو اندھیروں میں جھونک رہے ہیں۔

گزشتہ 12 برسوں میں بھارتی فورسز نے شوپیان، کلگام، پلوامہ، ترال، سرینگر، اسلام آباد، بارہمولہ، سوپور اور وادئ کشمیر کے جس حصے میں بھی عوامی احتجاج اور مزاحمت کا سامنا ہوا وہیں انہوں نے شہریوں پر گولیوں، پیلٹ گنوں اور آنسوں گیس کے بدترین حملے کرکے ہزاروں شہریوں کو تخت مشق بنایا۔

نہتے شہریوں پر پیلٹ گن کے جان لیوا حملوں پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر نے کوئی متاثر کن آواز نہیں اٹھائی ۔ جس سے بھارتی قابضین کو حملوں میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔

کشمیر بار ایسوسی ایشن” نے جولائی 2016 میں حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گن کے تباہ کن استعمال سے متاثرہ افراد کی بدترین حالت زار دیکھ کر اس مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔images (4)

بھارتی حکومت کے زیر اثر جموں کشمیر ہائی کورٹ نے "کشمیر بار ایسوسی ایشن” کی پیلٹ گن کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی مفاد عامہ کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ ’مشتعل ہجوم کی طرف سے تشدد کیئے جانے کے پیش نظر پیلٹ گن کا استعمال جاری رینا چاہئے۔‘

ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ بھارت اور اس کی دس لاکھ افواج ریاست جموں کشمیر میں تحریک مزاحمت کو کچلنے کیلئے نہتے شہریوں کیخلاف ہر جنگی ہتھیار، کالا قانون، دہشتگردی ، ہر ہر حربہ، قید و بند اور ملکی وسائل استعمال کررہا ہے جبکہ دوسری طرف نہتے کشمیریوں کے پاس سینے ہیں جن پر گولیاں کھاتے ہیں آنکھیں ہیں جن پر پیلٹ برستے ہیں گھر ہیں جن پر گولے اور بارود برستا ہے۔

کشمیری عوام کا ہر ظلم سہنے کے پیچھے ایک مقصد ہے وہ یہ کہ کشمیری عوام "عظیم جنگ آزادی” لڑ رہی ہیں۔ اسی لیئے وہ مقصد” آزادی ” کو حاصل کرنے کیلئے ہر قربانی پیش کررہے ہیں۔

عزیر احمد غزالیimages (5)

( آزادی کا مسافر ) 12 نومبر 2022

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button