مکانوں کو منہدم کرنے کا عمل غیرآئینی ، بھارتی سپریم کورٹ
متاثرہ افراد کو فی کس 10لاکھ روپنے دینے کا حکم
لکھنو: بھارتی سپریم کورٹ نے اتر پریش کے علاقے پریاگ راج میں ایک وکیل ، ایک پروفیسر اورتین دیگر افراد کے گھروں کو منہدم کرنے کے معاملے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ مکانوں کو منہدم کرنے کا عمل غیر آئینی تھا۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق 2021میں ہونے والی اس بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ روز اپنا فیصلہ سنایا ۔ عدالت عظمی نے متاثرہ پانچوں درخواست گزاروں کو دس دس لاکھ روپنے بطور معاوضہ دینے کا حکم بھی دیا ہے ۔ یہ معاضہ چھ ہفتوں کے اندر دیا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ نوٹس ملنے کے محض 24گھنٹے کے اندر مکانوں کو منہدم کرنا غلط اور غیر قانونی تھا ، رائٹ تو شیلٹر نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، اس طرح کی کارروائی کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ معاوضہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں حکومتین مناسب عمل کے بغیر لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے سے گریز کریں۔ فیصلہ سنانے والے ججوں نے اس موقع پر حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کا بھی حوالہ دیاجس میں ایک گرتی ہوئی جھونپڑی سے ایک چھوٹی بچی کو اپنی کتابیں لے کر بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قابل ستائش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ گھر صرف پیسے سے تعمیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسکے ٹوٹنے کا زخم صرف پیسوں سے بھرا جاسکتا ہے ، اہلخانہ کیلئے گھر ایک احساس کا نام ہے اور اسکے ٹوٹنے پر جو تکلیف ہوتی ہے اسکا نہ توکوئی معاوضہ دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسکی کوئی تلافی کرسکتا ہے ۔