” سی اے اے، این آر سی“ہٹلر کے نیورمبرگ قانون کی مانند ہیں، ارون دھتی رائے
نئی دہلی 16 دسمبر (کے ایم ایس) معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے اور دیگر نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر چھاپوں اور طلباءکی مارپیٹ میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق ارون دھتی رائے اور دیگر نے جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھارتی پولیس کے چھاپے کے دو برس مکمل ہونے پرنئی دلی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی۔مقررین نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباءپر چڑھائی کا حکم دینے والے پولیس افسروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔پریس کانفرنس سے اروندھتی رائے کے علاوہ فرح نقوی ، رادھیکا چٹکارا، فواز شاہین، نودیپ کور، بانوجیوتسنا لہری ، فرزانہ یاسمین طالب علم رہنما اختر ستہ انصاری اور انوگیا جھا نے خطاب کیا۔ اروندھتی رائے نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو ہٹلر کے نیورمبرگ قانون جیسا ہی قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ وہ ان قوانین کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس نے قومی اداروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ پیپلز یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس سے وابستہ رادھیکا چٹکارا نے کہا کہ پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے مقصد کے تحت ان پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔ اخترستہ انصاری نے کہا کہ امعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلم شاخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس نے جامعہ ملیہ کے کیمپس کے اندر گھس کر مسجد کے اندر نماز پڑھنے والے طلباءپر حملہ کیا اور مسلم طلبا کے خلاف گندی زبان استعمال کی۔فرزانہ یاسمین جن کے بھائی کو اپریل 2020 میں دہلی فسادات کے ایک کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا نے فرضی مقدمات میں گرفتارتمام کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔