مضامین
مضمون: فیلڈ مارشل کے دورہ امریکہ پر آخر بھارت کی پریشانی کیا ہے ؟

تحریر: نعیم اختر
پاکستان کے جوابی کرارے وارپر سٹپٹائے بھارتی سرکار اور اس کے گودی میڈیا کے اوسان ابھی تک صحیح طور بحال نہیں ہوئے ہیں ۔ابھی بھی پرانی روش باقی ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے انہیں بس ایک موقع یا بہانہ چاہئے اپنی دہشت گردی کی پردہ داری کے لئے ہمیشہ منفی پروپگنڈہ کا سہارا لیتے ہیں جب نتائج توقعات کے برعکس نکلتے ہیں پھر کوٸ نیا محاذ ڈھونڈ لیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے دورہ امریکہ کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فیلڈ مارشل کی امریکہ میں پزیرائی نے بھارتی حکمرانوں کو سخت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مودی سرکار سے جو سوالات پوچھے جارہے ہیں ان کا جواب دینے کی بجائے عوام کی توجہ حسب سابق پاکستان مخالف بیانیہ میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
درحقیت بھارتی بیانیہ کے لئے اقوام عالم میں کوٸ گنجاش نہیں ہے کہ کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر کسی دوسرے ملک کی سالمیت پر دھاوا بولا جائے ۔پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے نہ صرف عسکری محاذ پر اپنی سبکی کرا ئی ہے بلکہ خطہ کے دوسرے ممالک بھی اب بھارت کے ساتھ تعلقات میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں ۔افغانستان سی پیک کا حصہ بن کر بھارت کی امیدوں پر اوس پھیر رہا ہے ۔پاکستان اور افغانستان نے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ کویت نے بھی اب پاکستان پر ویزا پابندیاں ختم کردی ہیں۔ بھارت کی سفارتی تنہاٸ پر تلملا اٹھے کانگریسی راہنما پون کھیرا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب تو کولمبیا بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کے الفاظ میں یہ افسوس ناک ہے کہ بھارت کے دیرینہ دوست روس نے بھی پاکستان کے ساتھ دو اشاریہ چھ بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ کویت ایران اور دیگر خلیجی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں مودی سے پوچھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد اگر کوٸ چیز بھارت کو حاصل ہوٸ ہے تو بتایا جاۓ۔ اس کا جواب تو سادہ ہے کہ مودی نے پاکستان کے متھے لگ کر صرف رسواٸ کماٸ ہے اور اپنی رسوا کا تزکرہ بھلا کون کرتا ہے۔
بھارت میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس مودی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس نقصان کے بارے میں پارلیمنٹ کو بریف کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران بھارت کا مقدر ٹھرا ہے ۔اگر بھارت کی اپوزیشن جنگ میں ہونے والے نقصان پر حکومت سے تفصیلات چاہتی ہے تو یہ ایک طرف اگر اس کا جمہوری حق ہے تو یہ دوسری طرف اس سے اس بات کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ پاکستان نے اپنے دفاع کے حق میں بھارت کے اندر ضرور ایسی کوٸ تباہی پھیری ہے جو مودی سرکار اپنے عوام سے چھپانا چاہتی ہے ورنہ بھارتی سیاستدان اس کا مطالبہ ہی نہ کرتے ۔ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ کا کردار، جنگ میں پاکستان کی واضح برتری،پاکستان کی عالمی سطح پر پزیرائی اور بھارت کی تنہاٸ ،سیکورٹی اور خارجہ پالیسی پر مودی سرکار کی ناکامی اور گودی میڈیا کی شرمناک حد تک بے نقاب ہوئے منفی پروپگنڈہ پر جو بھی سوال پوچھتا ہے اس کو آن واحد میں غدار قرار دیا جاتا ہے ۔
مودی کی ترنگا ریلی بھی اپوزیشن کو خاموش نہ کرسکی اور بھارتی عوام کی بے چینی بڑھ رہی ہے کہ اگر عالمی میڈیا بھی بھارت کی شکست پر حیران ہے تو پھر ضرور ایسا کوٸ معاملہ ہے جس کی حکومت پردہ داری کر رہی ہے ۔اسی تناظر میں کامیابیوں پر کامیابیاں سمیٹتے پاکستانی فیلڈ مارشل کا دورہ امریکہ بھی اب بھارتیوں سے ہضم نہیں ہورہا اور اس طۓ شدہ دورہ کو بھی دور کی کوڑی لاتے ہوئے ایران کی مخالفت سے جوڑا جا رہا ہے۔ دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں حالانکہ گزشتہ مہینہ پاک بھارت تناٶ میں کمی لانے کی کوششوں کے سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عرقچی نے پہلے بھارت کا ہی دورہ کیا تھا جبکہ صحافت کی دنیا میں جھوٹ کے بیوپاری میجر گوراوآریہ نے ٹی وی نشریات میں براہ راست ایران کے وزیر خارجہ کے لئے جو نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے اس کی گونج اب بھی باقی ہے اور یہ طئے کہ گورآریا یہ حرکت اپنے آقاٶں مودی ٹولہ کی منشاء کے تحت ہی کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے پاک بھارت جنگ کے دوران ایران کے مثبت کردار کو سراہا ہے۔
یہ امر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اسرایل اور بھارت ایک دوسرے کے سٹریٹجک پارٹنر ہیں اور اپنے مقبوضہ خطوں فلسطین اور کشمیر میں کئی دہایوں سے مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں ۔اگر اسراٸیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہ واضح اعلان ہے کہ ایران اور پاکستان کو وہ اپنے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے تو ظاہر ہے اسی مسلم دشمنی کے جزبہ کے تحت بھارتی وزیر اعظم مودی بھی اس کا فطری پارٹنر ہے ۔اسی پس منظر میں جب اسرائیل نے ایران پر کھلی جارحیت کی تو پاکستان سمیت کئی ممالک نے نہ صرف اس کی مزمت کی بلکہ ایران کی جوابی کاروائ کو یو این چارٹر کے تحت درست قرار دیا ہے جبکہ بھارتی حکمرانوں کو بالکل سانپ سونگھ گیا اور بھارتی میڈیا کے انداز بیان سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ تل ابیب میں لگی آگ کی تپش وہ اپنے دل پر محسوس کر رہے ہیں ۔اسرائییل کی غنڈہ گردی اور اس کی سفاکیت کا تزکرہ کرنے کی بجائے اپنی منفی ذہنیت کے تحت بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کرنا شروع کریا کہ پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایران کے خلاف کوٸ محاذ کھولنے کی تیاری ہے ۔دراصل پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوٸ قربت اور مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیش کش مودی سرکار کے لئے سوہان روح بن چکی ہے ۔کسی نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ دوست اور دشمن کی پہچان کڑے وقت میں ہی صحیح طور ہوتی ہے ۔ایران پر بھی اب مودی سرکار کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی پالیسی دو اور دو چار کی طرح واضح ہو چکی ہے۔
پاکستان کے جوابی کرارے وارپر سٹپٹائے بھارتی سرکار اور اس کے گودی میڈیا کے اوسان ابھی تک صحیح طور بحال نہیں ہوئے ہیں ۔ابھی بھی پرانی روش باقی ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے انہیں بس ایک موقع یا بہانہ چاہئے اپنی دہشت گردی کی پردہ داری کے لئے ہمیشہ منفی پروپگنڈہ کا سہارا لیتے ہیں جب نتائج توقعات کے برعکس نکلتے ہیں پھر کوٸ نیا محاذ ڈھونڈ لیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے دورہ امریکہ کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فیلڈ مارشل کی امریکہ میں پزیرائی نے بھارتی حکمرانوں کو سخت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مودی سرکار سے جو سوالات پوچھے جارہے ہیں ان کا جواب دینے کی بجائے عوام کی توجہ حسب سابق پاکستان مخالف بیانیہ میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
درحقیت بھارتی بیانیہ کے لئے اقوام عالم میں کوٸ گنجاش نہیں ہے کہ کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر کسی دوسرے ملک کی سالمیت پر دھاوا بولا جائے ۔پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے نہ صرف عسکری محاذ پر اپنی سبکی کرا ئی ہے بلکہ خطہ کے دوسرے ممالک بھی اب بھارت کے ساتھ تعلقات میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں ۔افغانستان سی پیک کا حصہ بن کر بھارت کی امیدوں پر اوس پھیر رہا ہے ۔پاکستان اور افغانستان نے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ کویت نے بھی اب پاکستان پر ویزا پابندیاں ختم کردی ہیں۔ بھارت کی سفارتی تنہاٸ پر تلملا اٹھے کانگریسی راہنما پون کھیرا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب تو کولمبیا بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کے الفاظ میں یہ افسوس ناک ہے کہ بھارت کے دیرینہ دوست روس نے بھی پاکستان کے ساتھ دو اشاریہ چھ بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ کویت ایران اور دیگر خلیجی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں مودی سے پوچھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد اگر کوٸ چیز بھارت کو حاصل ہوٸ ہے تو بتایا جاۓ۔ اس کا جواب تو سادہ ہے کہ مودی نے پاکستان کے متھے لگ کر صرف رسواٸ کماٸ ہے اور اپنی رسوا کا تزکرہ بھلا کون کرتا ہے۔
بھارت میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس مودی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس نقصان کے بارے میں پارلیمنٹ کو بریف کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران بھارت کا مقدر ٹھرا ہے ۔اگر بھارت کی اپوزیشن جنگ میں ہونے والے نقصان پر حکومت سے تفصیلات چاہتی ہے تو یہ ایک طرف اگر اس کا جمہوری حق ہے تو یہ دوسری طرف اس سے اس بات کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ پاکستان نے اپنے دفاع کے حق میں بھارت کے اندر ضرور ایسی کوٸ تباہی پھیری ہے جو مودی سرکار اپنے عوام سے چھپانا چاہتی ہے ورنہ بھارتی سیاستدان اس کا مطالبہ ہی نہ کرتے ۔ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ کا کردار، جنگ میں پاکستان کی واضح برتری،پاکستان کی عالمی سطح پر پزیرائی اور بھارت کی تنہاٸ ،سیکورٹی اور خارجہ پالیسی پر مودی سرکار کی ناکامی اور گودی میڈیا کی شرمناک حد تک بے نقاب ہوئے منفی پروپگنڈہ پر جو بھی سوال پوچھتا ہے اس کو آن واحد میں غدار قرار دیا جاتا ہے ۔
مودی کی ترنگا ریلی بھی اپوزیشن کو خاموش نہ کرسکی اور بھارتی عوام کی بے چینی بڑھ رہی ہے کہ اگر عالمی میڈیا بھی بھارت کی شکست پر حیران ہے تو پھر ضرور ایسا کوٸ معاملہ ہے جس کی حکومت پردہ داری کر رہی ہے ۔اسی تناظر میں کامیابیوں پر کامیابیاں سمیٹتے پاکستانی فیلڈ مارشل کا دورہ امریکہ بھی اب بھارتیوں سے ہضم نہیں ہورہا اور اس طۓ شدہ دورہ کو بھی دور کی کوڑی لاتے ہوئے ایران کی مخالفت سے جوڑا جا رہا ہے۔ دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں حالانکہ گزشتہ مہینہ پاک بھارت تناٶ میں کمی لانے کی کوششوں کے سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عرقچی نے پہلے بھارت کا ہی دورہ کیا تھا جبکہ صحافت کی دنیا میں جھوٹ کے بیوپاری میجر گوراوآریہ نے ٹی وی نشریات میں براہ راست ایران کے وزیر خارجہ کے لئے جو نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے اس کی گونج اب بھی باقی ہے اور یہ طئے کہ گورآریا یہ حرکت اپنے آقاٶں مودی ٹولہ کی منشاء کے تحت ہی کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے پاک بھارت جنگ کے دوران ایران کے مثبت کردار کو سراہا ہے۔
یہ امر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اسرایل اور بھارت ایک دوسرے کے سٹریٹجک پارٹنر ہیں اور اپنے مقبوضہ خطوں فلسطین اور کشمیر میں کئی دہایوں سے مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں ۔اگر اسراٸیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہ واضح اعلان ہے کہ ایران اور پاکستان کو وہ اپنے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے تو ظاہر ہے اسی مسلم دشمنی کے جزبہ کے تحت بھارتی وزیر اعظم مودی بھی اس کا فطری پارٹنر ہے ۔اسی پس منظر میں جب اسرائیل نے ایران پر کھلی جارحیت کی تو پاکستان سمیت کئی ممالک نے نہ صرف اس کی مزمت کی بلکہ ایران کی جوابی کاروائ کو یو این چارٹر کے تحت درست قرار دیا ہے جبکہ بھارتی حکمرانوں کو بالکل سانپ سونگھ گیا اور بھارتی میڈیا کے انداز بیان سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ تل ابیب میں لگی آگ کی تپش وہ اپنے دل پر محسوس کر رہے ہیں ۔اسرائییل کی غنڈہ گردی اور اس کی سفاکیت کا تزکرہ کرنے کی بجائے اپنی منفی ذہنیت کے تحت بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کرنا شروع کریا کہ پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایران کے خلاف کوٸ محاذ کھولنے کی تیاری ہے ۔دراصل پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوٸ قربت اور مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیش کش مودی سرکار کے لئے سوہان روح بن چکی ہے ۔کسی نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ دوست اور دشمن کی پہچان کڑے وقت میں ہی صحیح طور ہوتی ہے ۔ایران پر بھی اب مودی سرکار کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والی پالیسی دو اور دو چار کی طرح واضح ہو چکی ہے۔