انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز کی عدالتی حراست میں 19فروری تک توسیع
نئی دلی 24 جنوری (کے ایم ایس)
انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ممتاز کشمیری انسانی حقوق کے علمبردار خرم پرویز کی فوری رہائی کے مطالبات کے درمیان نئی دہلی کی ایک عدالت نے ان کی عدالتی حراست میں 19فروری تک توسیع کر دی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے خرم پرویز کو گزشتہ سال 22نومبر کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت سرینگر میں ان کی رہائش گاہ اور دفتر پر چھاپے مارنے کے بعد گرفتار کیا تھا۔پرویز کی اہلیہ ثمینہ میر نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اور ان کے اہلخانہ خرم سے ملاقات کیلئے نئی دلی کی تہاڑ جیل جانا چاہتے تھے تاہم جیل حکام نے کورونا وبا کی وجہ سے جیل میں قیدیوں کی انکے اہلخانہ سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے اہلخانہ خرم پرویز فوری اور غیر مشروط رہائی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خرم پرویز کی رہائی کیلئے عدالت میں مقدمے کی پیروی جاری رکھیں گے۔
ادھر انسانی حقوق کی متعد د مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوںاو ر سیاست دانوں نے خرم پرویز کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں 28سے زائد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے برطانیہ میں بھارتی ہائی کمشنر کو ایک مشترکہ خط لکھا میںخرم پرویز کی غیر قانونی نظربندی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ان کی نظر بندی کی وضاحت طلب کی تھی۔اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی خرم پرویز کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 2016میںخرم پرویز پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کر کے نظربند کردیاگیا تھا۔ انہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے سے روکے جانے کے ایک دن بعد گرفتار کیاگیاتھا۔ انہیں 76 دن تک قید رکھنے جانے کے بعد رہا کیا گیا ۔خرم پرویز جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشین فیڈریشن کے چیئرپرسن اور کولیش آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹربھی ہیں۔