مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کے تشکیل شدہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ پرشدید تنقید
سرینگر 06 فروری (کے ایم ایس) غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور دیگر سیاسی جماعتوں نے حد بندی کمیشن کی حالیہ رپورٹ پر شدیدتنقید کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہرطرح کی منطق کی نفی کرتی ہے اور کوئی سیاسی، سماجی اور انتظامی وجہ ان سفارشات کو درست ثابت نہیں کر سکتی۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ پارٹی اب اس رپورٹ پر تفصیلی ردعمل تیار کرنے میں مصروف ہے اور اس پورے عمل کو چیلنج کرنے کے لیے دیگر راستے بھی تلاش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ جمعہ کی رات کو موصول ہوئی تھی اور میں اسے تفصیل سے پڑھ رہا ہوں۔ لیکن اب تک میں نے جو کچھ بھی دیکھا ، نیشنل کانفرنس اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پہلے بتایا گیا تھا کہ حلقہ بندیوںکا عمل ضلع کے ساتھ اسمبلی کی نشستوں کو مربوط بنانے کے لئے کی جا رہی ہے لیکن رپورٹ بالکل مختلف تصویر دکھا رہی ہے۔جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے حد بندی کمیشن کی عبوری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے آئینی ادارے کے بجائے خود کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی ذیلی تنظیم ثابت کیا ہے۔پارٹی ترجمان نے کہاکہ کمیشن کی عبوری سفارشات کے حوالے سے میڈیا رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ کمیشن کا واحد مقصد بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کاپچھلے دروازہ سے جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں داخلے کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی طرف سے اس پورے عمل کے بارے میں ظاہر کئے گئے خدشات سچ ثابت ہو گئے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ بھارت پر حکمران بی جے پی نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کرنے کے لیے ہر قدم اٹھایا ہے اور حد بندی بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھانے کا ایک قدم ہے۔ انہوں نے کہاکہ فسطائی اور فرقہ پرست طاقتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی حمایت سے ہر طرح سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس عمل سے علاقہ افراتفری کا شکار ہو گیا ہے۔کانگریس رہنماطارق حمید قرہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوام اور ان سہولت کاروں کے لیے پیغام ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ظالموں کو قدم جمانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک مخصوص علاقے اور فرقے کو طاقت سے محروم کرنے کے مذموم منصوبے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اورراجوری جیسے جغرافیائی طور پر غیر فطری اور لسانی طور پر مختلف پارلیمانی حلقہ تشکیل دینا اس کی ایک روشن مثال ہے۔