پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت کشمیر لاء کالج کے پرنسپل کے عہدے سے برطرف
سرینگر 11اپریل (کے ایم ایس)غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میںمودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے کشمیری ملازمین کے خلاف اپنی مذموم مہم کو جاری رکھتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت کو آزادی پسند تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام پر کشمیر لا ء کالج سرینگر کے پرنسپل کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔
ڈاکٹر شیخ شوکت پر عائد کیاگیا بنیادی الزام یہ ہے کہ وہ آزادی پسند ہیں اور بھارت کے خلاف 2016کی عوامی احتجاجی تحریک کے حامی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے2016میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سرکردہ رہنما سید علی گیلانی، ممتاز بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے اور پروفیسر ایس اے آر گیلانی کے ساتھ پریس کلب آف انڈیا نئی دہلی میں” آزادی ۔واحد راستہ” کے عنوان سے منعقدہ کنونشن میں شرکت کی تھی۔برطرفی کے خط میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شوکت ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے کنونشن میں بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں تقریریں کیں اور اس موقع پر بھارت مخالف نعرے لگائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے ڈاکٹرشوکت کی ماضی کی سرگرمیوں کی مکمل تفصیلات معلوم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جو ایک غلط بیانیہ کی تشکیل کہ”جب تک جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے کچھ اچھا نہیں ہوسکتا” اور اسے برقرار رکھنے میںحریت نیٹ ورک کے عناصر کی مدد کے لیے خفیہ طور پر ان سے رابطے میں تھے۔ مجاز حکام پنشن سے متعلق قوانین کی متعلقہ دفعات پر غور کر رہے ہیں جو ریاست کو پنشن ختم کرنے کا اختیار دیتے ہیں ۔
دریں اثناء ڈاکٹر شوکت نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انہیں کشمیر لا ء کالج کے پرنسپل کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ آزادی پسند تنظیموں سے اپنے مبینہ روابط کی خبروں پر ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شوکت نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ میں زندگی بھر ایک ماہر تعلیم کے طور پر مختلف اداروں میں خدمات انجام دیتا رہا ہوں، اگر میرے ساتھ ایسا کوئی تعلق ہوتا تو میں سرکاری ملازمت میں نہ ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ہر کسی کے لیے دستیاب ہے، چاہے وہ مقامی میڈیا ہو یا بین الاقوامی ۔ڈاکٹر شوکت نے کہا کہ مجھے میڈیا کے ذریعے ان الزامات کا پتہ چلاہے۔