مقبوضہ جموں و کشمیر

تاجروں کو سخت وارننگ کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہڑتال

ٹائم میگزین کی 100بااثر شخصیات کی فہرست میں خرم پرویز کا نام شامل
سرینگر 24مئی (کے ایم ایس)غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں تاجروں، دکانداروں اور ٹرانسپورٹروں کو کاروبار بند رکھنے کے حوالے سے مودی حکومت کی سخت وارننگ کے باوجود بھارتی کینگرو عدالت کی طرف سے حریت رہنما محمد یاسین ملک کو ایک جھوٹے مقدمے میں مجرم قراردیے جانے کے خلاف آج بیشتر علاقوں میں ہڑتال کی گئی۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی عدالت نے جمعرات کو2017میں سیاسی طورپر قائم کئے گئے ایک مقدمے میں مجرم قراردیاتھا۔پولیس نے وادی کشمیر میں جے کے ایل ایف کے ارکان سمیت درجنوں حریت کارکنوں کو گرفتارکرلیا۔ بھارتی فورسز کے اہلکار ریذیڈنسی روڈ، ریگل چوک، گھنٹہ گھر، مائسمہ اور سرینگر کے دیگر علاقوںمیں گشت کر رہے تھے اور لائوڈ سپیکر کے ذریعے تاجروں اور ٹرانسپورٹروںکو دکانیں بند کرنے اور ٹریفک روکنے سے خبردارکر رہے تھے۔ جے کے ایل ایف کے سربراہ کو مجرم قراردیے جانے کی مذمت کے لیے مظفرآباد میں بھارت مخالف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
دریں اثناء انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویزکانام جنہیں بھارت نے کالے قوانین کے تحت نظربند کررکھا ہے، ٹائم میگزین نے اپنی 2022 کے 100بااثرترین شخصیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ صحافی اور مصنفہ رانا ایوب نے جنہوں نے ٹائم میگزین کے لیے مضمون لکھا ہے، کہا کہ بھارت کو خرم پرویز کو خاموش کرانا پڑا کیونکہ خطہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوںکے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ان کی آواز دنیا بھر میں گونج رہی تھی۔ ٹائم میگزین نے خرم پرویز کو”جدید دور کا ڈیوڈ” قرار دیا جو ان خاندانوں کی آواز بنے جنہوں نے بھارتی ریاست کی جبری گمشدگیوں میں اپنے بچے کھو دیے۔
محمد یاسین ملک جو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں،ان کے خلاف1987اور 1988میں قائم گئے جھوٹے مقدمات میں سرینگر میں انسداددہشت گردی کے کالے قانون ”ٹاڈا” کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالت میںورچوئل انداز میں پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنا دفاع کرنے والے وکلاء سے بات کرتے ہوئے اپنے اس بیان پر قائم رہنے کا عزم ظاہر کیا جو انہوں نے جمعرات کو دہلی کی این آئی اے عدالت کے سامنے دیا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہد آزادی ہیں۔
کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کشمیری صحافی فہد شاہ کو کپواڑہ سب جیل سے جموں کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ انہیں 4فروری کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کئے گئے نوجوانوں کے اہلخانہ کا موقف شائع کرنے پر جو بھارتی پولیس کے موقف سے متصادم تھا،گرفتار کیا گیا تھا ۔
ادھر نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت تحریک آزادی کی حمایت کرنے کے بہانے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کام کرنے والے مزید کشمیری ملازمین کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس سلسلے میںجو لوگ بھارتی ایجنسیوں کے نشانے پر ہیںان میں کشمیر یونیورسٹی کا تدریسی اور غیر تدریسی عملہ شامل ہے جبکہ کچھ مقبوضہ جموں وکشمیرکی انتظامیہ میں کام کر رہے ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button