مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارت:نفرت انگیز جرائم کے ایک اور واقعے میں 17سالہ مسلمان نوجوان پربجرنگ دل کے کارکنوں کا تشدد

نئی دہلی10اگست(کے ایم ایس) بھارتی ریاست اتر پردیش کے بلند شہر میںنفرت انگیز جرائم کے ایک اور واقعے میں ایک17سالہ مسلمان نوجوان ساحل صدیقی کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ہندو انتہاپسندوں کے ہجوم کی طرف سے ایک نوجوان لڑکے کو زدوکوب کرنے کی ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہوئی۔ساحل کے والد رئوف نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے جھوٹے دعوے پر نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے ان کے گھرآکر ساحل کو گلاوٹھی پولیس اسٹیشن آنے کے لئے کہا کیونکہ ان کے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا تھا۔ رئوف نے کہاکہ جب میں ساحل کے ساتھ پولیس اسٹیشن جا رہا تھاتو بجرنگ دل کے کچھ کارکنوں نے ہمیں راستے میں یہ درخواست کرتے ہوئے روکا کہ وہ پولیس اسٹیشن کے باہر معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ پہلے ہمیں بتائیں کہ معاملہ کیا ہے تو انہوں نے الزام لگایا کہ ساحل نے ایک لڑکی کی ویڈیو بنائی ہے اور اس کے گھر والوں کو اس کے خلاف شکایت ہے۔ساحل کے چچا سلمان نے جو موقع پر موجود تھے، میڈیا کو بتایاکہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے ہمیں گھیرتے ہوئے کہا کہ آپ معاملے کو چھپانے کے لیے کچھ رقم دیں لیکن ہم نے یہ کہتے ہوئے ادائیگی کرنے سے انکار کر دیا کہ جب ہم نے کوئی جرم نہیں کیاہے تو ہم کیوں پیسے دیں۔سلمان نے کہاکہ اس دوران بھیڑ میں سے ایک لڑکے آدیش چوہان نے ساحل کو مارنا شروع کر دیا۔ ان کی تعداد 20سے زیادہ تھی اور وہ سب اس میں شامل ہو گئے اور ساحل پر حملہ کیا جو وائرل ویڈیو سے ظاہر ہے۔ساحل کو اتنی بری طرح سے پیٹاگیا کہ اسے پسلیوں میں گہری چوٹ آئی اور اس کی ناک کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔ سلمان نے کہا کہ اگر وہ موقع پر نہ ہوتے تو ساحل مارا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی طرح ساحل کو بچانے اور پولیس اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔گیارہویں جماعت کا طالب علم ساحل اپنے والد رئوف کی دکان پر بیٹھا کرتا تھا جوایک سنار ہیں۔ رئوف کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو اس ویڈیو کا پہلے بھی علم نہیں تھا اور نہ ہی کسی لڑکی کے گھر والوں نے اس کی شکایت کی تھی۔ یہ پوچھنے پر کہ پھر ان کے بیٹے کوکیوں اتنی بری طرح مارا پیٹا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی پتہ نہیں ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button