مقبوضہ جموں و کشمیر

اترپردیش: مسلم آئی اے ایس افسر کیخلاف تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کرنے کی تحقیقات شروع

حیدرآباد30ستمبر(کے ایم ایس )
بھارت میں مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں خصوصا عالم دین اور دینی اداروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں اور اب اہم عہدوں پر فائز مسلمان افسروںکو بھی منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنایاجارہا ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ریاست اتر پردیش کی حکومت کی طرف سے تبدیلی مذہب کے الزام کے تحت مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد ریاست کے ایک سینئر آئی اے ایس مسلم افسر محمد افتخار الدین کو نشانہ بنایا گیاہے۔ مودی کے منظور نظر یوگی ادیتہ ناتھ کی حکومت نے ایک 6سال پرانی ویڈیو کو بنیاد بناکر محمد افتخار الدین پر تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ان کے خلاف تحقیقات کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے جو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کریگی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق افتخار الدین کے خلاف تبدیلی مذہب کی جو ویڈیوز تحقیقات کیلئے بنیاد بنائی گئی ہے وہ 2014سے2017کے درمیان کی ہیں جب وہ کان پور کے ڈویژنل کمشنر تھے ۔ ان ویڈیوز میں وہ سورہ الاعراف کی آیت نمبر158کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”آسمانوں اور زمین پر بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور نبی کریم ۖ کے بعد یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین اسلام کو تمام انسانیت تک پھیلائے ”۔ محمد افتخار الدین مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور اس وقت یو پی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے سربراہ ہیں۔ ڈپٹی میئر اجمیر میونسپل کارپوریشن راجستھان نیرج جین نے سب سے پہلے ٹوئٹر پر یہ ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے مسلم آئی اے ایس افسرپر تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیاتھا۔ سدرشن نیوز چینل نے بھی یہ ویڈیو سوشل میڈیا میں جاری کی جو کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کی شہرت رکھتا ہے۔
اسی دوران آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اوربھارتی پارلیمنٹ کے رکناسد الدین اویسی نے مسلمان آئی اے ایس افسر کے خلاف تحقیقات پرشدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ واقعہ مذہب کی بنیاد پر نشانہ بناتے ہوئے ہراساں کرنے کا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگرمودی حکومت کا معیار یہ ہے کہ کوئی سرکاری افسر مذہبی سرگرمیوں سے وابستہ نہ رہے تو پھر سرکاری دفاتر میں مذہبی نشانات اور تصاویر پر پابندی عائد کی جانی چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر صرف عقیدہ کی بات اپنے گھر میں کرنا بھی جرم ہے تو پھر ان تمام عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے جو عوامی، مذہبی تقاریب میں حصہ لیتے ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button