مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارت میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے بڑھتے ہوئے واقعات

نئی دہلی17نومبر (کے ایم ایس) بھارت میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق بھارت میں جرائم کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے” نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو“ (این سی آر بی)کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2014 سے 2018 تک یعنی پانچ سال کے دوران تیزاب پھینکنے کے 1483 واقعات درج کیے گئے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ملک کے دورافتادہ علاقوں میں خواتین پر ہونے والے اس طرح کے حملوں کے کیس مختلف وجوہات کی بنا پر پولیس میں درج نہیں کرائے جاتے۔این سی آر بی کے مطابق مذکورہ پانچ برس میں تیزاب پھینکنے کے سب سے زیادہ 309 واقعات 2017 میں پیش آئے جبکہ 2018 میں 277 واقعات درج کرائے گئے۔ ان دو برسوں میں مجموعی طور پر 623 خواتین متاثر ہوئیں لیکن اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر برس صرف 149افراد کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی جو ہر سال پیش آنے والے واقعات سے نصف سے بھی کم ہے۔2018 میں سب سے زیادہ 61 فیصد یعنی 523 کیس عدالتوں تک پہنچے تاہم ان میں سے صرف 19واقعات میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق بھارت میں تیزاب پھینکنے کا شکار ہونے والوں میں یوں تو مرد بھی شامل ہیں تاہم حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 85 فیصد خواتین اور لڑکیاں اس بھیانک جرم کا نشانہ بنتی ہیں۔ایسڈ اٹیک کے لیے سب سے بدنام بھارت کی دس ریاستوں میں شامل اترپردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے اور کم از کم اب تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو جاگ جانا چاہیے۔سابق اعلی پولیس افسر کے مطابق بھارتی کریمنل لاءمیں تیزاب پھینکنے کے دوران متاثرہ خاتون یا مرد کو اپنا دفاع کرنے اور قریب میں موجود افراد کی جانب سے دفاعی اقدامات کی مکمل اجازت دی گئی ہے تاہم لاعلمی کے سبب اس حق کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوپاتا ہے، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی طرح کے ایک واقعے میںدہلی میں ایک 26 سالہ شادی شدہ خاتون تقریبا دو ہفتے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد پیر کی رات دم توڑ گئی جس پر تین نومبر کو دہلی کے علاقے بوانا میں ایک شخص نے تیزاب سے حملہ کیا تھا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button