آج جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، وہیں بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا جابرانہ قبضہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اپنے اس ناجائز و غاصبانہ قبضے کو دوام بخشنے کیلئے نت نئے حربے بھی ازما رہا ہے۔ کشمیری عوام کے سیاسی سمیت تمام حقوق سلب کیے جاچکے ہیں۔ بلاشبہ 10دسمبر 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ آج کے دن کو ایک عالمی اعلامیے کے بطور پوری دنیا میں منوایا گیا مگر کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ یہ مظالم ختم ہونے کا نام لے رہے ہیں ۔کیونکہ پورے مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔ گو کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں 30بنیادی اصول درج اور شامل ہیں مگر ان 30 بنیادی اصولوں میں سے ایک پر بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں عملدر آمد نہیں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کو آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ AFSPA اور UAPA جیسے کالے وسفاکانہ قوانین کی موجودگی میں استثنا حاصل ہے ،جس کی اڑ میں یہ درندے دندناتے پھرنے کے علاوہ کشمیری عوام پر قہر مسلط کررہے ہیں۔یوں گزشتہ 7دہائیوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔بھارتی فوجی حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں امن و آزادی سے محبت کرنے والے بلالحاظ ہر عمر و جنس لوگوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل ، گرفتار، ہراساں،تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنارہے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں 35 برسوں میں 96,382 کشمیری شہید اور72,464 گرفتار کیے گئے۔جن میں سے 7,370کو دوران حراست اورجعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔ یہ بھارتی بربریت کا ہی نتیجہ ہے کہ22,980خواتین بیوہ اور 107,974 بچے یتیم ہوئے،اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات وردی پوش بھارتی فوجیوں، پیراملٹری و پولیس اہلکاروں نے 11,265خواتین کیساتھ بے حرمتی یا ان کی آبروریزی کی جبکہ 110,521رہائشی مکانات، دکانیں اور دیگر عمارتیں مکمل طورپر تباہ یا انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ 8000سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا گیا۔ ریاست کے طول وعرض میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئیں،جن میں ہزاروں کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی اجتماعی طور پر تدفین کی گئی۔ یہ ایسے زخم ہیں ،جو مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔درجنوں اور سینکڑوں والدین اپنے پیاروں کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے۔مائوں کی آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں۔آج بھی ان لاپتہ لوگوں کا ا ن کے گھروں میں بے صبری سے انتظار ہورہا ہے،کہ شاید وہ واپس آجائیں ۔ان جبری گمشدگیوں نے ہزاروں خواتین کو جنم دیا جو نیم یا آدھ بیوہ کہلاتی ہیں۔جو ہر ورز آنگاروں پر لوٹتی ہیں۔
انسانی حقوق کا عالمی دن بجا طور پر ایک مسلمہ حقیقت ہے اور مہذب معاشروں میں بود وباش ،زندگی کے رنگ ڈھنگ ،سماجی و اقتصادی تابے بانے میں انسانوں کو ان کی ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ہے ،البتہ مقبوضہ جموں و کشمیر بنیادی انسانی حقوق سے محروم سرزمین ہے،جو گزشتہ 78 برسوں سے وحشیانہ بھارتی فوجی قبضے کے شکنجے میں ہے۔اس بات سے بھی کوئی ذی حس انکار نہیں کرسکتا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں سے ایک بھی بنیادی انسانی حق مقبوضہ جموں و کشمیرمیں موجود نہیں ہے۔05اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارتی جبر میں خوفناک اضافہ ہواہے۔مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیرکو ایک جہنم میں تبدیل کیا ہے اور یہاں کوئی بھی کشمیری بھارتی جبر سے محفوظ نہیں ہے۔کشمیری عوام کو حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں بے رحمی سے قتل کرنے کے علاوہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ا ن کی تذلیل کی جاتی ہے۔جبکہ مودی حکومت نے 5 اگست 2019 سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔5 اگست 2019 میں ہندوتوا بی جے پی کی بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے 18 خواتین سمیت 950 کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں سے 246 کو جعلی مقابلوں اور دوران حراست شہید کیا گیا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے 05اگست 2019 سے لیکر آج کے دن تک گھر گھر چھاپوں، محاصروں اور تلاشی کارروائیوں کے دوران 135 خواتین کیساتھ بدتمیزی اور دست درازی کی ہے۔پوری آزادی پسند قیادت کے علاوہ ہزاروں کشمیری نوجوان اور درجنوں خواتین بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید وبند کی زندگی گزاررہی ہیں۔سینکڑوں کشمیریوں کی جائیداد و املاک ،جن میں زرعی اراضی،رہائشی مکانات،میوہ باغات شامل ہیں،پر قبضہ کیاجاچکا ہے۔سینکڑوں کشمیری مسلمان ملازمین کو ان کی نوکریوں سے برطرف کیا جاچکا ہے۔لوگوں کی سانسوں پر پہرے بٹھائے جاچکے ہیں۔مودی اپنی بدنام زمانہ ایجنسیوںSIA،ED،NIAاور SIU کو تھوک کے بھاو استعمال کررہا ہے،تاکہ اہل کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرایا جائے،جس میں سوا پانچ لاکھ کشمیری 1947سے لیکر آج کے دن تک اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں۔آج بھی نہ ختم ہونے والی قربانیاں جاری ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین پر ہو کا عالم ہے۔یہاں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔یوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرزمین دینا میں سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والی ریاست ہے۔قدم قدم پر فوجی بینکر قائم اور یہاں تاحد نگاہ فوجی چھاونیاں اور کیمپ قائم ہیں۔ ایسے میں 10 دسمبر 1948 میں منظور کیا جانے والا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اہل کشمیر کے نزدیک نہ صرف ایک بڑا مذاق ہے ، بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوا م کیلئے ایک سہاناخواب بھی۔اہل کشمیر کی مذہبی آزادی بھی سلب کی گئی ہے۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کو بار بار مقفل رکھنا،نماز جمعہ کے علاوہ عیدیں،محرم اور دوسرے اجتماعات اس لیے منعقد نہیں ہونے دیئے جاتے،کہ کہیں یہ اجتماعات بھارت مخالف احتجاج اور مظاہروں میں تبدیل نہ ہوجائیں۔بھارتی حکمرانوں کے دلوں میں خوف وڈر اور وسوسہ بدستور موجود ہے کہ کشمیری عوام ان کے جبری قبضے کو قبول نہیں کرتے اور وہ اس سے اچھی طرح باخبر بھی ہیں،کہ کسی وقت لاوا پھٹ سکتا ہے،جس میں بھارتی حکمران ہی نہیں بلکہ پورا بھارت بھی بھسم ہوکر رہے گا۔
آج کی جدید دنیا میں جبری قبضے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،فوجی طاقت کے بل پر محکوموں کی بستیاں اور گھر ملیا میٹ تو کی جاسکتی ہیں ،لوگوں کو قتل اور ان کی نسل کشی کی جاسکتی ہے ،انہیں جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کیا جاسکتا ہے،مگر انہیں ان کی مرضی کے برعکس غلام بنایا جانا ممکن نہیں ۔آج اگر ارض فلسطین میں صہیونی سامراج اہل فلسطین کی نسل کشی کے تمام مراحل کراس کرچکا ہے ،جس کی گواہی اب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی دی ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی اسرائیلی سامراج کو غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھرا چکی ہے،مگر اہل غزہ پر اس قدر قیامت برپا کرنے کے باوجود کیا اسرائیل انہیں اپنا ہمنوا بنا سکا ہے؟جواب پہلے بھی نفی میں تھا،آج بھی نفی میں ہے اور تاصبح قیامت نفی میں ہی ہوگا۔شام کی موجودہ صورتحال بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے،جبکہ بنگلہ دیش میں رواں برس 05اگست کو حالات نے ایسی کروٹ بدلی،جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔کہ کل تک اقتدار پر فائز ایک ظالم حکمران خاتوں کا پندرہ سالہ دور اقتدار منٹوں میں دھڑام کرکے زمین بوس ہوجائے گا۔اور آج وہ بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔اس سے دوبرس قبل افغانستان میں 56 ممالک کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس افواج کو محض چند گھنٹوں میں سرنڈر کرتے ہوئے دنیا چکی ہے۔یقینا بھارت کیلئے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات ساز گار نہیں ہیں اور اب تو سوشل میڈیا پر یہ نعرے گردش بھی کررہے ہیں کہ اب مقبوضہ جموں و کشمیر کی باری ہے۔ لہذا وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری آگے بڑھے اور بھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنی ریاستی دہشت گردی بند کرانے اور کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلانے پر مجبور کرے۔ان حالات میں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔امن کا پیٹ صرف خالی نعروں سے بھرا نہیں جاتا،اس کیلئے جابر و ظالم قوتوں کے خلاف ٹھوس اور مضبوط و موثر اقدامات نظر آنے چاہئیں۔اہل کشمیر کوئی حشرات الاض نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں ،ان کے انسانی حقوق اسی طرح پامال ہوتے رہے،تو پھر امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔