بھارت میں مسلمان فرقہ وارانہ تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں: امریکی رپورٹ
واشنگٹن 13اپریل(کے ایم ایس)امریکی محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق کے بارے میں منگل کو جاری کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ2021ء میں کہاہے کہ بھارت میں مسلمان فرقہ وارانہ تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق رپورٹ میں بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، ماورائے عدالت قتل کے واقعات، پولیس اور جیل حکام کی طرف سے توہین آمیز سلوک یا سزا اور سرکاری حکام کی جانب سے جبری گرفتاریوں اور نظربندیوں سمیت مختلف مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔رپورٹ میںپبلک سیفٹی ایکٹ اورغیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قوانین کے تحت کشمیری صحافیوں کے خلاف مقدمات ، نظربندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔رپورٹ میں ایسے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں اتر پردیش کے شہر کانپور میں مسلمان افراد کی عوام میںپریڈ کروائی گئی اور ”جئے شری رام” کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا اور گزشتہ سال آسام کے ضلع ڈارنگ میں کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دیہاتیوں کو بے دخل کرنے کے دوران پولیس کی طرف سے گولی باری کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کے دوران مسلمانوں کا جسمانی استحصال، امتیازی سلوک، جبری نقل مکانی اور گائے کی اسمگلنگ پر لنچنگ کے واقعات جاری رہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبدیلی مذہب کے قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ اتر پردیش، گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت ریاستی حکومتوں نے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے”لو جہاد”کے نام پر گزشتہ سال سے انسداد تبدیلی مذہب قوانین نافذ کیے ہیں۔”لو جہاد” کی توہین آمیز اصطلاح کو ہندوتوا تنظیموں نے اپنی اس سازشی تھیوری کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے کہ مسلمان مرد اسلام میں داخل کرانے کے واحد مقصد کے لئے ہندو خواتین سے شادی کررہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ”لو جہاد”کے خلاف قوانین سے شادی کے ذریعے تبدیلی مذہب کو ایک جرم بنایاگیا ہے اور ہندو خواتین سے شادی کرنے کی کوشش کرنے والے مسلمان مردوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق شہریت ترمیمی قانون کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی بھی دیکھی گئی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ غیر قانونی سرگرمیوںکی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے نظربندی کے قوانین جابرانہ ہیں۔غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون حکام کو بغیر کسی الزام کے لوگوں کو بغاوت یا دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے تحت 180دنوں تک نظربند رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021میں منی پور اور جموں و کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے اطلاق میں اضافہ دیکھا گیا۔ 2019کے بعد سے جموں و کشمیر انتظامیہ نے اس قانون کے تحت تقریبا 1200 کیسز میں 2,300سے زیادہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموںکے مطابق پولیس نے لوگوں کو زبردستی اعتراف جرم کرانے کے لیے تشدد، بدسلوکی اور نظربندی کا استعمال کیا۔کچھ کیسز میں پولیس نے مشتبہ افراد کو ان کی گرفتاریوں کا اندراج کیے بغیر حراست میں رکھا اور گرفتار افراد کو مناسب خوراک اور پانی فراہم نہیں کیاگیا۔رپورٹ میں خاص طور پر 84سالہ اسٹین سوامی کے ساتھ کیے گئے غیر انسانی سلوک کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک عیسائی پادری تھا جسے بھیما کوریگائوں کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ کیس2018میں پونے کے قریب ایک گائوں میں ذات پات کے تشدد سے متعلق ہے۔ تشدد کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں سولہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔سوامی کی ممبئی کے ایک اسپتال میں موت ہوگئی جب وہ پولیس کی حراست میں تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پراسیکیوٹرز نے کارکن عمر خالد کا ٹرائل شروع کرنے میں تاخیر کی تھی۔خالد کو دیگر کارکنوں کے ساتھ شمال مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان فسادات پھوٹنے کے بعد 14ستمبر 2020کو گرفتار کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ آئین کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی ہے۔