بھارت” صحافت کی آزادی” کی عالمی درجہ بندی میں افغانستان اور زمبابوے سے بھی پیچھے
نئی دہلی04مئی (کے ایم ایس) مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیراور خود اپنے ملک میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی حکومت کے تحت 2014سے بھارت میں آزادی صحافت میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ صحافت کی آزادی کے علمبردارعالمی ادارے ”رپورٹرز وِدآئوٹ بارڈرز ”کے مطابق 2021میں آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں بھارت کا 142واں نمبر ہے جو افغانستان اور زمبابوے سے بھی نیچے ہے۔”فری اسپیچ کلیکٹو” کے لیے گیتا سیشو کی ایک تحقیق کے مطابق بھارت صحافیوں کے لیے تیزی سے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ سن2020میں 67صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور 200کے قریب کو جسمانی تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون (UAPA)کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔بھارت طویل عرصے سے اختلافی آوازوں کو مسلسل دبا رہا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں صحافیوں کو قتل، اقدام قتل ، گرفتاریوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 1989سے اب تک متعدد صحافی قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارتی حکومت کے زیر کنٹرول جعلی میڈیا آزاد صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی افسوسناک حالت کو چھپانے کے لیے مسلسل مہم چلارہاہے۔بھارت بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے۔بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے دو مثالیں کافی ہیں۔ اروندھتی رائے کو بھارت اور پاکستان کی افواج کا موازنہ کرنے پر عوامی سطح پر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا جس میں انہوں نے کہاتھا کہ بھارتی حکومت نے کشمیر، شمال مشرقی ریاستوں، تلنگانہ اور گوا سمیت مختلف علاقوںمیں اپنے لوگوں کے خلاف فوج تعینات کی ہے جبکہ پاکستان نے اسطرح اپنی فوج اپنے لوگوں کے خلاف تعینات نہیں کی ہے۔ دوسری مثال معروف بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ کی ہے جنہیں ان کے اس ایک بیان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دھمکیاں دی گئیں کہ ”میں اپنے بچوں کے لیے پریشان ہوں، اگر کل کوئی ہجوم انہیں گھیر لے اور ان سے پوچھے کہ تم ہندو ہویا مسلمان ؟ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا”۔