بھارت میں اب مغربی بنگال کی سب سے بڑی آدینہ مسجد کو متنازع بنانے کی کوشش
کولکتہ31مئی (کے ایم ایس)بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا حکومت کی مذموم مہم جاری ہے اور اس مرتبہ نشانہ ریاست مغربی بنگال کی سب سے بڑی اور تاریخی آدینہ مسجد ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق ضلع مالدہ کے علاقے پانڈو ا میں واقع تاریخی آدینہ مسجد پر بی جے پی نے ایک نیا تنازعہ شروع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہے۔ اتوار کو بی جے پی رہنما رتیندر بوس ، مقامی رکن ر اسمبلی چن موئے دیو برمن اور کچھ دیگر بی جے پی رہنمائوں نے مسجد کا دورہ کیا۔ اس کے بعد رتیندرا بوس نے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر پوسٹ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر میں لگے پتھروں کے نقش و نگارسے واضح ہے کہ یہ مسجد آدیناتھ مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہے۔آدینہ مسجد مغربی بنگال کی سب سے بڑی مسجد ہے جو ضلع مالدہ کے علاقے پانڈوامیں واقع ہے۔ یہ مسجد ضلع مالدہ کے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اورمختلف مذاہب کے لوگ یہاں آتے ہیں۔مگر اب بی جے پی قیادت نے مسجد پرایک نیا تنازعہ کھڑا کیاہے۔ رتیندرا بوس نے دعویٰ کیا کہ آدینہ مسجد کے فرش کے نیچے آدیناتھ مندر موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ جیتو سردار نے اس مندر کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی ہے اور یہ تاریخ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ انگریزوں اور مسلمان حکمرانوں سے مندر کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔
آدینہ مسجد بنگال سلطنت کے الیاس شاہی خاندان کے دوسرے سلطان سکندر شاہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔یہ مسجد تاریخی شہر پانڈوا میں واقع ہے جو بنگال سلطنت کا سابق دارالحکومت تھا۔ پانڈوا سلطنت کے دور میں ایک ترقی پذیرشہر اور تجارتی مرکز تھا۔مسجد پورے برصغیر کی سب سے بڑی مسجد تھی جب یہ 1374ء میں مکمل ہوئی تھی۔ بادشاہ الیاس شاہ کا بیٹا سکندر شاہ تھا۔ 1342میں الیاس نے دہلی سلطنت سے آزادی کا اعلان کیا اور آزاد بنگال سلطنت (1342-1538)کے پہلے حکمران بنے۔ باپ بیٹے نے دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق کی 1353اور 1359میں بنگال کو ضم کرنے کی فوجی مہمات کے خلاف کامیابی سے مزاحمت کی۔ امریکی مورخ رچرڈ ایٹن کے مطابق سکندر نے اپنی بادشاہی کا کامیابی سے دفاع کرنے کے بعد بڑی یادگار تعمیر کرکے اپنی طاقت کامظاہرہ کیا۔ایک جرمن مستشرق اور کلکتہ مدرسہ کے پرنسپل ہنری فرڈینینڈ بلوچمین نے اپنی 1873 کی کتاب، Contributions to the Geography and History of Bengal میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔