صحافیوں پر مودی حکومت کے حملے نہ روکے گئے تو بھارت میں صحافت قصہ پارینہ بن جائے گی
اسلام آبادیکم اگست(کے ایم ایس) اگر دنیا صحافی برادری کے خلاف مودی حکومت کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہی تو بھارت میں صحافت قصہ پارینہ بن جائے گی۔
بھارت کے زیر قبضہ واحدمسلم اکثریتی علاقے جموں و کشمیر میں صحافیوں کو سنسرشپ کی دیگر اقسام کے علاوہ مقامی پولیس سٹیشنوں میں متواتر طلب کیاجارہا ہے ، ان کے پس منظر اور کوائف کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں جس سے صحافی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔”دی وائر” میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق گزشتہ دو سال میں کم از کم 40 کشمیری صحافیوں کو ان کا پس منظر جاننے کے لیے بلایا گیا، ان کے کام اور سوشل میڈیا پر طرز عمل کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کئی کشمیری صحافیوں کو بیرون ملک سفر کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ کم از کم چھ کشمیری صحافیوں پر باضابطہ طور پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔مودی کے دور میں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں صحافت کی حالت پر بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق: ” میڈیا کے لیے قتل ہونے والے کسی شخص کے رشتہ داروں کے بیانات کو رپورٹ کرنا جرم ہے اگر وہ موت کی وجہ ،پوسٹ مارٹم یا پولیس موقف پر سوال اٹھاتے ہیں؟”رپورٹرز ودآٹ بارڈرز کے مرتب کردہ 180 ممالک کے سالانہ عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں گزشتہ سال بھارت دو درجے گر کر 142ویں نمبر پر تھا۔بھارت میں صحافیوں پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیاکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ گیتا سیشو کی جانب سے فری اسپیچ کلیکٹو کے لیے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 2020میں 67صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور تقریبا 200پر باضابطہ حملے کئے گئے۔ ایک صحافی جو ریاست اتر پردیش میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی کوریج کرنے جا رہا تھا، پانچ ماہ سے جیل میں ہے۔دہلی میں مقیم فری لانس صحافی نیہادکشت کا کہنا ہے کہ ان کا پیچھا کیا گیا، کھلے عام عصمت دری اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں، بری طرح سے ٹرول کیا گیااور ان کے اپارٹمنٹ میں گھسنے کی کوشش کی گئی۔ رواں ہفتے پولیس نے ایک اور فری لانس صحافی روہنی سنگھ کو مبینہ طور پر قتل اور عصمت دری کی دھمکیاں بھیجنے کے الزام میں قانون کی ایک طالبہ کو گرفتار کیا۔جن صحافیوں نے خاموش ہونے سے انکار کیا ، ان پر حملے کئے گئے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک آزاد صحافی اور ایڈیٹر فہد شاہ پر انسدادِ دہشت گردی کے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے جس کے تحت انہیں دو سال تک بغیر کسی مقدمے کے جیل میں رکھاجا سکتا ہے اوران کا قصوریہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف حکومت کے کریک ڈان کی رپورٹنگ کی تھی۔ صحافت کے خلاف اس جنگ میں مودی حکومت نہ صرف دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کے ذریعے صحافیوں پر حملہ کر رہی ہے بلکہ حکومتی ہمدردوں اور ان کی سوشل میڈیا فوج کے ذریعے منظم حملے بھی کر رہی ہے۔ آن لائن دھمکیاں اور سوشل میڈیا پر ہراساں کرنا بھارت میں خواتین صحافیوں کے لیے ایک معمول بن چکا ہے جس کا واحد مقصد ملک میں آزاد میڈیا کو روکنا ہے۔