جموں وکشمیر پر بھارت کا غاصبانہ تسلط: تاریخ کا سیاہ باب اوربدنما داغ ہے
اسلام آباد 03اگست (کے ایم ایس)
جموں وکشمیر پر بھارت کا غیرقانونی اور غاصبانہ تسلط مہذب اقوام، عالمی امن اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جبکہ عالمی طاقتوں اور بااثر ممالک کے دوہرے کردار نے بھارت کیلئے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بے گناہ شہریوں پر مظالم ڈھانے کا راستہ ہموار کیا ہے۔بھارتی قابض افواج کے ہاتھوںجموں و کشمیر میں اپنے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف کشمیری نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل، شہریوں کی گرفتاری، ظلم وتشدد، خواتین کی آبروریزی اور شیر خوار بچوں کو پیلیٹ گنوں سے شہید کرنا ایک معمول بن گیا ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، عالمی برادری کی خاموشی نے بھارت کو اپنے آئین کے دفعہ 370اور 35Aکو منسوخ کرکے کشمیریوں کو محکوم بنانے کے اپنے مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے دفعہ 370کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کردیا جس کے تحت کشمیری عوام کو شہریت، جائیداد کی ملکیت اور رہائش کے بنیادی حقوق حاصل تھے ۔ اب بھارتی شہری جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں اور بھارتی حکومت کو مقبوضہ علاقے میں مالیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا اختیار بھی مل گیاہے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق پر دستخط کیے جس کے بعد بھارت نے خارجہ، دفاع اور مواصلات بھارتی حکومت کو منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ شیخ عبداللہ نے وزیر اعظم کے طور پر تقرری کے بعد بھارتی حکومت کے ساتھ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بات چیت کی جس کے نتیجے میں 1954میں دفعہ370اور اس کے بعد35Aکو بھارتی آئین میں شامل کیاگیا۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت ہندو اکثریتی علاقے بھارت جبکہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے تھے لیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرتے ہوئے مقامی آبادی کو اپنے فیصلے کیخلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہوگئی اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو تنازعہ کشمیر کواقوام متحدہ میں لے گئے جہاں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کیلئے متعددقراردادیں منظور کی گئیں۔ یہ جواہر لال نہرو کی بیان کردہ پالیسی تھی کہ اگر کسی علاقے میں کوئی تنازعہ ہو تو اس معاملہ کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جانا چاہیے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اس طرح کے کسی بھی ریفرنڈم کے نتیجے کو قبول کریں گے۔ کشمیر کے بارے میں نہ تو نہرو اور نہ ہی دیگر بھارتی لیڈروں نے اس اصول کا احترام کیا اور انہوں نے کشمیر میں رائے شماری کرانے سے ہمیشہ گریز کیا۔کشمیر یوں نے طویل عرصہ تک رائے شماری کا انتظار کیا لیکن بھارت کی طرف سے مسلسل انکار کے بعد انہوں نے مقامی سطح پر جدوجہد شروع کی لیکن بھارت نے ان کے جائز مطالبہ حق خود ارادیت پر کان دھرنے کے بجائے لاکھوں فوجیوں کومقبوضہ علاقہ میں تعینات کردیا۔ معروف کشمیری رہنمائوں اور ہزاروں عام شہریوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔ پاکستان نے ہمیشہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی کوشش کی ہے ، دونوں ملکوں کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات بھی ہوئے لیکن جب بھی بات چیت میں کوئی پیش رفت ہوئی تو بھارتی افواج کی جانب سے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری یا پاکستان کے اندر دیگر سازشیں کی گئیں۔ کنٹرول لائن پر 2003میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا جس کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے کنٹرول لائن پر عارضی طور پر کشیدگی کم ہوگئی۔ 2005میں سرینگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس شروع ہوئی اور خطے میں زلزلے کے بعد دونوں اطراف نے تجارت کیلئے راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کنٹرول لائن کے آرپار سامان کی نقل و حمل کی اجازت دی گئی۔اس پیش رفت کے باوجود بھارتی افواج کی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری اور دیگر ظالمانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت میں 2014کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی اور بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈا پر عمل شروع کیا جبکہ بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں کشمیری رہنمائوں اور تحریک آزادی کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، 2016 میں نوجوان کشمیری رہنمابرہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کو مہمیز اور تقویت دی۔ حالیہ برسوں کے دوران بی جے پی اور بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن اور ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت نے ہمیشہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو بڑھانے کیلئے مختلف حربوں کا سہارا لیا ہے اور اس سلسلے کی تازہ مثال 2019میں کنٹرول لائن کے پار پاکستانی فضائی حدود میں بھارتی لڑاکا طیاروں کی دراندازی تھی۔ فروری 2019میں بھارت کی اس فضائی مہم جوئی کے دوران پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے دو لڑاکا طیاروں کو مار گرایا اور اس کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا جسے بعد میں پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کردیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد بی جے پی ایک بار پھر بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس بار اس نے تمام سفارتی اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان آئینی دفعات کو منسوخ کردیا جن کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔ کشمیر کا تنازعہ ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن عالمی ضمیر مسلسل سو رہا ہے جس سے کشمیری عوام کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔