بھارت مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے ، ایمنسٹی انٹرنیشنل
لندن 02ستمبر (کے ایم ایس)لندن میں قائم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پرزیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آج ” ہمیں قانون کے ذریعے سزا دی جا رہی ہے: جموں کشمیر میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد تین سال”کے عنوان سے اپنی بریفنگ جاری کی ہے ۔ بریفنگ میں کہاگیا ہے کہ "بڑے پیمانے پر سول سوسائٹی کے ارکان، صحافیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو خاص طورپرسخت انٹیروگیشن ، جبری سفری پابندیوں، نظربندیوں اور جابرانہ میڈیا پالیسیوں کا سامناہے اور عدالتوں اور انسانی حقوق کے اداروں میں ان اپیلوں یا انصاف تک رسائی کی انکی کوششوں کو روکاگیا ہے ۔”ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بریفنگ میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد تین سال کے دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل نے کہاہے کہ "بھارتی حکومت نے تین سال سے جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو سخت کریک ڈائون کا نشانہ بنایا ہے۔ بھارتی حکومت کالے قوانین، سخت گیر پالیسیوں اور غیر قانونی طریقوں کے ذریعے اختلاف رائے کو دبارہی ہے ۔حکام تنقیدی آوازوں کو دبانے اور خوف و دہشت کا نشانہ بناکر جموں و کشمیر میں معلومات کے تمام معتبراور آزاد ذرائع کو خاموش کرار ہے ہیں ۔ بھاری جبر نے خطے میں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں اگست 2019سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف کریک ڈان کے کم از کم 60 واقعات ریکارڈ کئے ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قابض حکام کی طر ف سے ہراساں کئے جانیوالے ایک کشمیری صحافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ جموں و کشمیر میں آزادانہ صحافت کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ 2020 کی نظر ثانی شدہ میڈیا پالیسی اور 2021کی فلم پالیسی کی منظوری کے بعد بھارتی حکومت کومقبوضہ علاقے سے آنیوالی معلومات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور چھ ماہ کی انٹرنیٹ کی بندش کے بعد، بھارتی قابض حکام اب بھی اکثر واقات کشمیر کے مختلف حصوں میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے انٹرنیٹ سروسز معطل کر دیتے ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے رواں سال کشمیر پریس کلب کی اچانک جبری بندش پہلے سے ہی پابندیوں کے شکار میڈیا کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افرادکودرست سفری دستاویزات ہونے کے باوجود بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا جوکہ شہریوں کے آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی کی صریحاخلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق 5اگست 2019سے اب تک کم سے کم 27صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار یاحراست میں لیا ہے۔فہد شاہ، آصف سلطان اور سجاد گل سمیت کئی صحافیوں کو متعدد بار گرفتار کیاگیا ۔ پہلے انہیں ایک قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ، عدالت کی طرف سے ضمانت ملنے کے بعد انہیں پھر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ جنوبی کشمیر کے ایک وکیل نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا2016کے بعد سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ضمانت کاحصول مشکل بنا دیاگیا ہے۔ان قوانین کے تحت پولیس کو 180 دنوں تک کسی بھی شخص کو مقدمے کے انداراج کے بغیر اپنی حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اس نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود1346مقدمات کا جائزہ لیا۔یکم اگست 2022تک دائر کی گئی رٹ پٹیشنوں کی تعداد میں 32فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے گزشتہ تین برس میں غیر قانونی حراست کے واقعات میں اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے شائع اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا ۔جس کے مطابق جموں و کشمیر میں 2019کے بعد سے کالے قانون یو اے پی اے کے علاوہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے بے جا استعمال میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ بھی لوگوں کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے کیلئے چھاپے ماررہے ہیں۔ ایمنسٹی نے ایک ممتاز روزنامہ کے ایک سینئر ایڈیٹر کے حوالے سے کہاہے کہ جب این آئی اے کسی صحافی کے گھر پر چھاپہ مارتا ہے یا انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کسی ایڈیٹر کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکی دیتا ہے، تو اس سے نہ صرف مذکورہ صحافی بلکہ پوری کمیونٹی متاثر ہوتی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے اورمقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے لیے آزادانہ طور پر اپنا کام جاری رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔2020میں این آئی اے نے انسانی حقوق کے ممتاز علمبرداروں جیسے خرم پرویز، ان کے تین ساتھیوں اور پروینہ آہنگر کی رہائش گاہوں اور دفاتر پر متعدد چھاپے مارے۔ تنظیم نے کہا کہ اخبار کشمیر ٹائمز، این جی اوز آتھروٹ اور جی کے ٹرسٹ کے دفاتر اور ایجنسی فرانس پریس کے کشمیر میں نمائندے پرویز بخاری کی رہائش گاہوں پر بھی چھاپے مارے گئے ۔ خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ ثمینہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ این آئی اے کے اہلکاروں نے ان کے اہلخانہ کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لے لئے تھے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق غیر قانونی چھاپے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی واضح خلاف ورزی ہیں، جیسا کہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں درج ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں بالخصوص ہندو اقلیتی برادری کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں غیر قانونی قتل کا سامنا ہے اور حالیہ دنوں میں ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔بھارتی حکومت نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ اپریل 2020اور مارچ 2022کے درمیان مقبوضہ کشمیر پولیس مقابلوںمیں ہلاکتوں میں اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے ۔کالے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے مسلسل نفاذ کی وجہ سے مقبوضہ علاقے میں پولیس کوخصوصی اختیارات اور استثنیٰ حاصل ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری طور پر نظربند تمام کشمیریوںکو فوری طورپر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان پر باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمات چلائے جائیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی حکومت ہند کو جوابدہ بنائے اور اقوام متحدہ کے ساتھ اس کے تعاون کو یقینی بنائے اور مقبوضہ علاقے میں فوری اور آزادانہ تحقیقات کی سہولت فراہم کرے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا کہ بھارتی حکام کو جموں و کشمیر میں طویل عرصے سے جاری ظلم و تشدد کاسلسلہ فوری طور پر ختم کرنا چاہیے۔